Maktaba Wahhabi

26 - 180
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ تم کو معلوم ہے کہ مزاح کا نام مزاح کیوں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ’’نہیں‘‘ فرمایا: ’’مزاح مشتق ہے زیح سے جن کے معنی دوری کے ہیں اس سے معلوم ہوا مزاح حق سے دور کرتا ہے اور ہر شے کا ایک بیج ہے اور عداوت کا بیج مزاح ہے۔‘‘ اور بعض اکابرین کا قول ہے کہ مزاح سے عقل سلب ہو جاتی ہے ،دوست الگ ہو جاتے ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ’’احیاء العلوم‘‘ میں ان اقوال کو نقل فرماکر تحریر فرماتے ہیں: اب معلوم کرنا چاہیے کہ اگر شاذ ونادر کوئی ایسا شخص ہو کہ مزاح میں حق کے سوا کچھ نہ کہے کسی کو ایذا نہ دے اور نہ افراط کرے بلکہ کبھی کبھی کیا کرے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا دستور تھا تو اس طرح کے مزاح میں کچھ مضائقہ نہیں ۔(مذاق العارفین :3۔181) ترمذی شریف میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو اور نہ اس سے مذاق کرو اور نہ ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کرسکو۔‘‘ کچھ لوگ یہ حدیث بیان کرکے کہتے ہیں کہ انسان کے لیے ہنسی مزاح ٹھیک نہیں۔ اس سوال کا جواب امام نووی رحمۃ الہ علیہ نے یوں دیا ہے کہ وہ مذاق جو حد سے بڑھ جائے اور وہ انسان جو ہر وقت مذاق کو اپنی عادت ہی ٹھہرا لے اور زندگی کے مقصد سے عاری ہو جائے اگر یہ مذاق اس کے دل کی سختی کا سبب ہو تو یہ مذاق ٹھیک نہیں۔ لیکن اس کے سوا جو مزاح ہو بالخصوص جس
Flag Counter