(أوفی ذلک أنت یاابن الخطاب ؟إن أولئک قوم عجلوا طیباتھم فی الحیاۃ الدنیا ) یعنی:اے خطاب کے بیٹے!کیا تم بھی اس بارہ میں سوچتے ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کی اچھائیوں کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا گیا ہے۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا:(یارسول اللہ!إستغفرلی)اے اللہ کے رسول!میری بخشش کی دعاکردیجئے۔[1] دنیاوی انہماک وانشغال کی بجائے اخروی فوزوفلاح کی طرف توجہ دینا ہی دانشمندی ہے ،اللہ تعالیٰ جو ہمارا ایک ایک عمل دیکھ رہا ہے اور روزِ قیامت ان کی جزاء یا سزا کے فیصلے فرمائے گاتوصورتِ حال بہت ہی خوفناک ہوگی،اور معاملہ انتہائی سنگین ہوگا۔ ہماری اخروی استعداد کے حوالے سے یہ سوچ ہونی چاہئے کہ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہر عمل کا پوراپورابدلہ دینا ہے تو ہم صرف اچھے اعمال اختیار کرلیں،تاکہ برے بدلے سے بچ سکیں۔ پھر اچھے اعمال میں ایسے بہت سے عمل ہیں کہ وہ بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں،جن سے بڑی آسانیاں حاصل ہوجائیں گی اور محض اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کامیابی کی امیدیں پیداہوجائیں گی۔ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |