Maktaba Wahhabi

41 - 144
جیسے مچھلی کاپانی کے بغیر اور کسی بھی ذی روح کا ہواکے بغیر گذارا نہیں،اسی طرح ایک بندۂ مومن کا دعاءِ ہدایت کے بغیر گذارانہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک مقام پر،اس شرعی مقصد پر تفصیلی کلام کیا ہے،اور طلبِ ہدایت سے مراد دوچیزیں ذکرفرمائی ہیں:ایک اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت طلب کرنا،دوسری اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت پر ہمیشہ قائم رکھنا۔ ہم کہتےہیں کہ ایک تیسری چیز اوربھی ذہن میں ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس ہدایت میں اضافہ فرماتاجائے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے ذکر میں فرمایا: [اِنَّہُمْ فِتيَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًى] [1] یعنی:وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب کے ساتھ ایمان لاچکے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں مزید اضافہ فرمادیا۔ ہدایت،اصل حیات ہے صراطِ مستقیم کی ہدایت وہ نور ہے جس کے بغیر انسان اندھا ہے،بلکہ صراطِ مستقیم کی ہدایت،اصل حیات ہے،جس کے بغیر ایک انسان زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِہٖ فِي النَّاسِ
Flag Counter