اس جملہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعاکرنے والوں کا جتنا بڑا اجتماع ہوگا اتنا ہی قبولیت کا زیادہ امکان ہوگا۔ زبردست تنبیہ (۱۸)حدیث کا آخری جملہ زبردست تنبیہ کے طور پرہے،جوہمیں یہ بتارہا ہے کہ ہمارے تمام اعمال گنے جارہےہیں،اور گننے والی ذات اللہ رب العزت ہے،قیامت کے دن ہمارے تمام اعمال،خیرہوںیاشر،ہمارے سامنے آجائیں گے،اوربمطابق فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (ثم أوفیکم إیاھا) ہر صالح عمل کی نیک جزاء ملے گی اورہربراعمل سزا کا مستوجب ہوگا۔(الامن رحم ربی) اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:[فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ۸ۧ ][1] ترجمہ:تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا ،اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ اعمال صالحہ کی توفیق پرشکر بجالانے کی دووجوہ (۱۹)انسان اپنے اعمال میںجو اچھے عمل پائےان پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے،وہی ذات تعریف کی مستحق ہے،اس کی دووجوہات ہیں: |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |