Maktaba Wahhabi

135 - 144
صفت’’کلام‘‘اور منکرین کارد (۲) آغازِ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (قال) کہنا،یعنی :اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،سے اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام ثابت ہوتی ہے،قرآن حکیم میں اس نوع کی بے شمار مثالیں موجود ہیں،اللہ تعالیٰ کے قول یا کلام سے مراد یہ ہے کہ وہ اِنہی حروف والفاظ سے مرکب ہے اور اللہ تعالیٰ کی آواز کے ساتھ ہے،اور جسے اللہ تعالیٰ سنانا چاہے وہ سنتا ہے ۔ منکرینِ صفات تشبیہ کے محذور کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتے ہیںاور اسے محض کلامِ نفسی قرار دیتے ہیں ،یہ ایک ایسی تاویل ہے جو کتاب وسنت اور منہج سلف کے خلاف ہے،نیز کتاب وسنت پر اضافہ ہے اور اللہ تعالیٰ پر قولِ بلاعلم کے مترادف ہے۔والعیاذباللہ ظلم پر قدرت کے باوجود ظلم نہ کرنے کی وجہ (۳) اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس پر ظلم حرام فرمالیا ہے،اگرچہ وہ ظلم پر قادر ہے، لیکن چونکہ وہ کمالِ عدل کی صفت سے متصف ہے اس لئے ظلم نہیں فرماتا۔ (۴) ظلم صفاتِ نفی یا صفاتِ سلبیہ میں سے ہے،جس کی اللہ تعالیٰ سے نفی کی جائے گی اور یہ کہاجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا؛کیونکہ ظلم ایک عیب ہےاور وہ ذات عیوب ونقائص سےپاک ہے،اسے تنزیہی صفت بھی کہا جاسکتا ہے۔
Flag Counter