فقال: أتدرون مما أضحک؟ فقلنا: اللہ ورسولہ أعلم، قال: من مخاطبۃ العبد ربہ، فیقول: یا رب ألم تجرنی من الظلم، قال: فیقول: بلی، فیقول: فإنی لا أجیز علی نفسی إلا شاھدا منی، قال فیقول: کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا، وبالکرام الکاتبین شھودا، قال فیختم علی فیہ فیقال لأرکانہ: انطقی ،فتنطق بأعمالہ، قال :ثم یخلی بینہ وبین الکلام ، فیقول یعنی لأعضائہ بعد ا و سحقا ،لکن فعنکن کنت أجادل)[1] یعنی:أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں: ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچانک مسکرادیئے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا؟ہم نے عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں ایک بندے کے اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرنے کی وجہ سے مسکرایاہوں،چنانچہ بندہ اللہ تعالیٰ سے کہے گا:کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں بچایا؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیوں نہیں،بندہ کہے گا:میں اپنے اوپر اپنے گواہ کے بغیر کوئی حکم قبول نہیں کرونگا،تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:آج تیرا نفس تجھ پر فیصلہ کرنے کیلئے اور کراماکاتبین گواہی دینے کیلئے کافی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص کے منہ پر مہر لگادی جائے گی اور اس کے اعضاء |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |