اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ’’ خاموش ہونے کے ساتھ استثناء درست ہے، یا فاصل ہو مگر کلام ایک ہو( تو بھی استثناء درست ہے )، اس لیے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے : بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:
((إن ھذا البلد حرمہ اللہ یوم خلق السموات و الأرض ‘ لا یعضد شوکہ ‘ و لا یختلی خلاہ۔)) [1]
’’ بیشک یہ شہر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دن سے حرام ٹھہرایا ہے جب اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ نہ ہی اس کا کانٹا کاٹا جائے گا ‘ اور نہ ہی اس کی ہری گھاس کاٹی جائے گی ۔‘‘
’’(اس پر ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے اذخر کے (اذخر گھاس کی ایک قسم ہے )۔یہ ان کے گھروں اور قبروں کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سوائے اذخر کے ۔‘‘
یہ قول اس حدیث کی دلالت کی وجہ سے ارجح ہے۔
۲: یہ کہ مستثنی مستثنی منہ کے نصف سے زیادہ نہ ہو۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ : ’’ اس کے دس درہم مجھ پر ہیں سوائے چھ کے۔ تو یہ استثناء درست نہیں ہوگا ‘ اور اس پر تمام دس درہم ادا کرنا ہی لازم ہوں گے۔[2]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہ شرط نہیں ہے ‘ استثناء درست ہوگا ۔اگرچہ مستثنیٰ منہ کے نصف سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ ، تو مثال مذکور کی بنا پر اس پر چار درہم ہی واجب الاداء ہوں گے۔[3]
|