۲: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی :
’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’ میرے ہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟۔ اس نے کہا : ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا : ’’ ان کا رنگ کیا ہے ؟۔ کہنے لگا :’’ سرخ ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ کیا ان میں سفید سیاہی مائل( مٹیالے رنگ کا ) بھی ہے ؟ اس نے کہا : ’’ شاید یہ رگ کے کھنچ جانے سے ہو۔‘‘ [2] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ شاید یہی رگ کا کھنچ جانے سے تمہارا یہ بیٹا ہو ۔‘‘[3]
ایسے ہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہونے والی تمام مثالیں قیاس پر دلیل ہیں ۔ کیونکہ ان میں ایک چیز پر دوسری کا اعتبار ( برابر/موازنہ ) کیا گیا ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں سے :
امیر المؤمنین جناب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے ‘ انہوں نے اپنے خط میں حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ کوقضاء (فیصلہ )کے بارے میں لکھا تھا: [4]
’’ پھر سمجھ اور اچھی سمجھ ، اس معاملہ کی جو تمہارے پاس پیش کیاگیا ہو‘یا وہ معاملہ جو تمہارے ہاں وارد ہوا ہو‘ اور اس پر کتاب و سنت کی کوئی دلیل نہ ہو، پھر اپنی
|