اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:۴۳)
’’اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو ۔‘‘
یہاں پر أہل ذکر سے مراد اہل ِ علم ہیں ۔اور مقلد ان اہل علم میں سے نہیں ہے جن کی اتباع کی جارہی ہو۔ بلکہ وہ دوسرے کی اتباع کرنے والا ہے۔
ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ اور دیگر علماء فرماتے ہیں : ’’اہل علم کا اجماع ہے کہ مقلد کا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا۔ اور یہ کہ علم دلیل کے ساتھ کی معرفت کا نام ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بات یہی ہے جو ابو عمر رحمہ اللہ کا فرمان ہے ۔بیشک اس میں لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ’’ علم اس معرفت کا نام ہے جو دلیل سے حاصل ہو۔ اور جو دلیل کے بغیر ہو ‘ اسے تقلید کہتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد ابن قیم رحمہ اللہ نے تقلید کے ساتھ فتوی کے جواز پر تین اقوال نقل کیے ہیں :
۱: تقلید کے ساتھ فتوی جائز نہیں ہے ۔کیونکہ (یہ مفتی خود) اہل علم نہیں ہے۔ اور بغیر علم کے فتوی دینا حرام ہے۔ یہ قول اکثر اصحاب کا اور جمہور شافعیہ کا ہے۔
۲: یہ ( فتوی ) اس چیز میں جائز ہے جس کا تعلق اس کی ذات سے ہو۔ اور اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ فتوی میں دوسروں کی تقلید کرے۔
۳: بیشک ضرورت کے وقت ، اور مجتہد عالم کے نہ ہونے کی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔ یہی ان اقوال میں سب سے صحیح تر ہے ‘ اور اسی پر عمل کیا جارہا ہے ۔[1]انتہی کلامہ۔
اور اس کے ساتھ ہی جو ہمارا ان مختصر نوٹس کے لکھنے سے ارادہ تھا ‘ پورا ہوگیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں قول و عمل میں کامیابی الہام کردے۔ اور ہمارے اعمال کو کامیابی سے سرفراز کردے۔ بیشک وہ بہت ہی کریم او رمہربان ہے۔
وصلی اللّٰه تعالیٰ علی نبینا محمدوعلی آلہ و صحبہ و بارک و سلم علیہ
|