نجات یافتہ جماعت کا منشور:
(۱)… نجات پانے والی جماعت وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑے اور وہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا منہج و طریق) قرآنِ کریم ہے جس کو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث کے ذریعے اپنے صحابہ کرام کو سمجھایا۔ پھر مسلمانوں کو ان دونوں کو تھام لینے کا حکم دیا اور فرمایا:
(( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ۔ )) [1]
’’ میں نے تم میں دوچیزیں چھوڑی ہیں ان کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے۔ اور یہ دونوں الگ الگ نہیں ہوں گی، حتی کہ حوض کوثر پر میرے سامنے پیش ہوں گی۔ ‘‘
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے۔
(۲)… نجات یافتہ جماعت تنازعہ اور اختلاف کے وقت اللہ اور اس کے رسول کے کلام کی طرف رجوع کرتی ہے۔ اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ:
﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیلًاo﴾ [النسا:۵۹]
’’ اگر تمہارا کسی بھی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو۔ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہو۔ یہی اچھا اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے۔ ‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا o﴾ [النسا:۶۵]
’’ تو تیرے رب کی قسم ہے کہ وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ آپ کو اپنے
|