سلف رضی اللہ عنہم قرآن و حدیث کو سمجھے بغیر محض اس کے الفاظ پر ایمان لاتے تھے۔ گویا وہ ان پڑھ اور جاہل لوگوں کی طرح تھے۔ ‘‘
وہ سمجھتے ہیں :خلف کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ مختلف قسم کے مجازات اور غریب لغات کی وجہ سے حقائق سے پھرے ہوئے الفاظ کے معانی معلوم کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک فاسد گمان ہے جس کے نتیجہ میں ایک ایسی بات وجو دمیں آئی ہے جس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ الغرض انہوں نے اسلاف کے منہج کے بارے میں ایک جھوٹی بات کی ہے۔ اس پر منہج بہتان باندھا ہے اور خلف کے منہج کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں گمراہ ہو گئے۔ لہٰذا انہوں نے دو ناجائز کام کیے ؛
۱…اسلاف کے منہج سے جہالت اور اس پر جھوٹ باندھنا
۲…اسلاف کے علاوہ دوسروں کے طریقے کو درست ثابت کر کے جہالت اور گمراہی کا ارتکاب کرنا۔
اس کی وضاحت درج میں ہوتی ہے۔
دوسرا وہم: قرآنی دلائل یا منطق یونان؟
ابن قیم جو زی رحمہ اللہ ’’ مفتاح دار السعادۃ ‘‘ (۱/۱۴۵۔ ۱۴۶) میں فرماتے ہیں :
’’بہت سے جہلاء کو یہ وہم ہوا ہے کہ شریعت میں مباحثہ کا انداز نہیں ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخالفین سے مباحثہ نہیں کرتے تھے اور ان کے خلاف دلائل نہیں دیتے تھے۔ جاہل منطقیوں اور یونانی چوزوں کا خیال یہ ہے کہ شریعت عام لوگوں کو مخاطب کرتی ہے۔ لہٰذا اس میں استدلالی انداز نہیں ہوتا۔ اور انبیاء کرام علیہم السلام بھی خطابت کے ذریعے عام لوگوں کو دعوت دیتے رہے ۔دلائل تو خاص لوگوں کے لیے ہوتے اور وہ اہل علم لوگ ہیں ۔ اس سے ان کی مراد خود اپنی ذات اور اپنے پیرو کار ہوتے ہیں ۔ ‘‘
یہ تمام باتیں شریعت اور قرآن سے ان کی جہالت کا نتیجہ ہیں ۔ کیوں کہ قرآن کریم
|