اس راستے کے ساتھ منسلک ہونا جس پر مہاجر و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نیک پیروکار چلتے رہے، جو ان زمانوں کے لوگ تھے جن کی اچھائی اور خیر و برکت کی گواہی قرآن میں دے دی گئی ہے۔
۲…اعتراض:
کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ’’سلف‘‘ کی طرف کیوں منسوب کریں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ﴾ (الحج:۷۸) ’’ اسی نے تمہارا نام اس سے پہلے مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ اللہ کا رسول تم پر گواہ ہو جائے اور تم عام لوگوں کے گواہ بن جاؤ۔‘‘
اس کے جواب میں ہم قارئین کرام کے لیے اپنے شیخ رحمہ اللہ اور ’’ تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ ‘‘ کے مؤلف،استاد عبد الحلیم ابو شقہ کا ایک مکالمہ درج کرتے ہیں ۔جس سے بات بالکل واضح ہو جائے گی، ان شاء اللہ۔
شیخ محترم: اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کا مذہب کیا ہے تو آپ کیاکہیں گے؟
استاذ عبد الحلیم: مسلم
شیخ محترم: یہ تو کافی نہیں ہے!
استاذ عبد الحلیم: اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ اور پھر استاد عبدالحلیم نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ…الخ﴾ (الحج:۷۸)
شیخ محترم: یہ جواب تب صحیح ہوتا اگر ہم فرقے پھیلنے سے پہلے ابتدائی دور میں ہوتے۔ چنانچہ اگر اب ہم سے کوئی سوال کرے کہ ان فرقوں میں سے کون سے مسلمان ہو جن کے ساتھ ہم عقیدے میں بنیادی اختلاف رکھتے ہیں ، تو اس کا جواب اس لفظ(مسلم)سے ضرور مختلف ہو گا۔ ہرشیعہ ، خارجی ، رافضی ، درزی ،نصیری، علوی کہے کہ میں مسلم ہوں تو آج کے دور میں یہ جواب کافی نہیں ہو گا۔
|