کتاب میں ایک اور صیغہ دُرود یوں ہے:
(( أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ حَتَّی لَا یَبْقَی مِنَ الصَّلَاۃِ شَيْئٌ وَارْحَمْ مُحَمَّدًا حَتَّی لَا یَبْقَی مِنَ الرَّحْمَۃِ شَيْئٌ۔ ))
’’ اے اللہ! اس وقت تک نبی پر درود بھیج کہ دُرود ہی ختم ہوجائے اور اس وقت تک ان پر رحم فرما کہ رحمت ہی باقی نہ رہے۔ ‘‘
اس صیغہ میں دُرود اور رحمت کو بندے کے افعال کی صفت سمجھا گیا ہے، جو ختم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ اس کا یوں ردّ کرتا ہے:
﴿ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا o﴾ [الکہف:۱۰۹]
’’ کہہ دیں اگر سارے سمندر اللہ کے کلمات (کی تحریر) کے لیے سیاہی بن جائیں تو اللہ عزوجل کے کلمات ختم ہونے سے پہلے تمام سمندر ختم ہوجائیں گے۔ اگرچہ ہم ان جیسے اور بھی سمندر سیاہی کے لے آئیں ۔ ‘‘
٭ … بشیشی دُرود:
ابن بشیش صوفی کہتا ہے:
(( أَللّٰہُمَّ انْشِلْنِیْ مِنْ أَوْحَالِ التَّوْحِیْدِ، وَأَغْرِقْنِیْ فِیْ عَیْنِ بَحْرِ الْوَحْدَۃِ، وَزُجَّ بِیْ فِی الْأَحَدِیَّۃِ حَتَّی لَا أَرَی، وَلَا أَسْمَعَ، وَلَا أَحَسَّ إِلاَّ بِہَا۔ ))
’’ اے اللہ! مجھے توحید کے کیچڑ سے نکال کر وحدت کے سمندر میں غرق کردے، مجھے احدیت میں ڈال کر اس میں خوب ملادے، یہاں تک کہ میں نہ دیکھوں ، نہ سنوں اور نہ ہی محسوس کروں مگر صرف احدیت کے ساتھ۔ ‘‘
یہ ہندوؤں اور یونانی فلسفیوں کے نظریۂ وحدت الوجود کے قائل ان لوگوں کا مذہب ہے جو خالق و مخلوق کو ایک سمجھتے ہیں ۔ اس مذہب میں توحید کو گندگی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ صوفی دُعا
|