﴿ اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُط وَمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ o﴾ (الزمر:۲۳)
’’ اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے۔(یعنی قرآن جس کی آیتیں ) ملی جلی ہیں دوہرائی گئی ہیں ۔ جو لوگ اپنے مالک سے ڈرتے ہیں ان کی کھال کی روئیں (اس کو پڑھ کر) کھڑے ہوجاتے ہیں پھر اللہ کی یاد کی طرف ان کے (بدن) پوست اور دل نرم ہوجاتے ہیں یہ کتاب اللہ کی ہدایت ہے جس کوچاہتاہے اس (کے ذریعے) سے رستہ دکھلاتا ہے جس کو اللہ بھٹکادے اس کا کوئی راہ پر لانے والا نہیں ۔‘‘
اور وہ حاملین قرآن،اہل قرآن، حفاظ اورقراء ہیں ۔ یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرنے اور حاملین حدیث ہونے کی وجہ سے اس کی طرف نسبت کرتے ہیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے اندر ان دونوں معانی کے وجود کی وجہ سے اس نام کے مستحق ہیں ۔ کیوں کہ لوگ انہیں سے کتاب و سنت حاصل کرتے ہیں اور خلق خدا انہیں کو صحیح طور پر کتاب و سنت کے پیرو کار مانتی ہے۔ ہمیں آج تک کوئی ایسا بدعتی نظر نہیں آتا جس نے کبھی تعلیم قرآن کی تحریک کی قیادت کی ہو اور لوگوں نے اس سے کبھی قرآن سیکھا ہو اور نہ ہی کسی بدعتی نے آج تک روایت حدیث کا علم بلند کیا ہے اور نہ ہی آج تک کسی نے کسی شرعی معاملے میں ان کی پیروی کی ہے۔ [1]
|