کیے گئے ہو۔ ہر نئی ایجاد بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ 1 1۔ الإبانۃ الکبری: ۱۷۸۔ الرد علی المبتدعۃ: ۸۔ ۱۰۸۔ طلحہ بن مصرف کہتے ہیں : ’’ہر وہ چیز نہ بیان کرو جو تم سنتے ہو، ہاں وہ شخص جو تم سے حدیث بیان کرے اور وہ راہ سنت پر ہو۔‘‘ (اس کا کلام آگے بیان کرو)۔ (مسلم فی المقدمۃ، محمد بن سیرین فرماتے ہیں : بے شک یہ علم دین ہے، پس تم ضرور دیکھو کہ اپنا دین کسی سے لے رہے ہو؟)۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : چار قسم کے لوگوں سے علم نہیں لیا جائے گا، ان کے سوا باقی لوگوں سے لیا جائے گا۔ ایسے بیوقوف سے جو اعلانیہ حماقت کرتا ہو۔ اگرچہ لوگوں میں سب سے زیادہ روایت کرنے والا ہو، اور نہ ہی ایسے جھوٹے سے جو لوگوں کی باتوں میں جھوٹ بولتا ہو۔ جب اس بارے میں اس کا تجربہ کر لیا جائے۔ بھلے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی تہمت نہ ہو، اور نہ ہی ایسے بدعتی سے، جو لوگوں کو اپنی بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو، اور نہ ہی کسی ایسے فاضل عبادت گزار شیخ سے جسے حدیث کا علم نہ ہو۔ ۱۰۹۔ ابو ادریس خولانی کہتے ہیں : اگر میں دیکھوں کہ مسجد میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔ یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ کہ میں مسجد میں ایسی بدعت دیکھوں جسے روکا نہ جا سکتا ہو۔‘‘ 1 1۔ الإبانۃ: ۶۰۵۔ البدع: ۸۷۔ السنۃ للمروزی: ۸۸۔ ۱۱۰۔ حضرت عطاء کہتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ بدعتی کو توبہ کی اجازت (توفیق)نہیں دیتے۔‘‘ 1 1۔ الحلیۃ: ۵؍ ۱۹۸۔ ذم الکلام: ۷۹۴۔ للالکائی: ۲۸۳۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے توبہ کو ہر بدعتی سے روک لیا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی، جیسا کہ احمد بن حنبل نے کہا ہے، بدعت کے لیے توبہ کو آسان نہیں کیا جاتا۔‘‘ 1 1۔ بدائع الفوائد: ۴؍ ۱۳۸۷۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ اس سے توبہ نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے |