1۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ وَہَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَ اَصْلَحْنَالَہٗ زَوْجَہٗ اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًَا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo﴾ (الانبیاء: ۹۰)’’تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا، بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے۔‘‘ ﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًاo﴾ (الاسراء: ۵۷)’’وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں ، وہ (خود)اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں ، جوان میں سے زیادہ قریب ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب وہ ہے جس سے ہمیشہ ڈرا جاتا ہے۔‘‘ علامہ بربہاری فرماتے ہیں .....الخ۔ شرح السنۃ: ۸۸۔ بدعات اور اہل جاہلیت سے مشابہت: اور وہ نئی بدعات جن کی کتاب و سنت میں کوئی اصل نہیں اور وہ اہل جاہلیت کے اعمال سے مشابہت رکھتی ہیں ، (ان میں سے): ۵۲۶۔ ایک دوسرے کی مدد و نصرت پر اجتماع اور حلف۔ یہ انتہائی مکروہ بدعت ہے۔ اہل جاہلیت ایسا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ اس کو ختم کر دیا اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس سے منع فرمایا۔ ۵۲۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں کوئی حلیف نہیں ہے اور جو حلف عہد جاہلیت میں تھا، اسلام اس کو مزید پختہ کرتا ہے۔1 1۔ مسلم: ۲۴۳۰۔ ۵۲۸۔ شہادت بدعت ہے، براء ت بدعت ہے، و لایت بدعت ہے۔1 1۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ، شہادت: جس کے بارے میں کوئی علم نہیں اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کی شہادت دے۔ ولایت: یہ ہے کہ کچھ لوگوں سے دوستی رکھے اور باقی سے براء ت کا اظہار کرے۔ (حالانکہ اسلام کا حق سب کے لیے ہے۔ براء ت: ایسے لوگوں سے براء ت کا اظہار کرے جو کہ دین اسلام اور سنت نبویہ پر قائم ہوں ۔ (السنۃ لعبد اللہ: ۶۲۱۔ الإبانۃ: ۱۲۷۷۔ السنۃ للخلال: ۷۶۳) اور یہ بھی بدعت ہے کہ: ۵۲۹۔ حاکم کسی انسان کو پکڑ کر مارے اور سزا دے اور اس سے پوچھے تم نے ایسے کیا ہے؟ ایسے کیا ہے؟ حتیٰ کہ اس سے اعتراف کروا لے۔1 |