Maktaba Wahhabi

34 - 111
خیال ہے کہ تمہیں بکریاں اور دیہاتی ماحول بہت پسند ہے، لہذا جب تم اپنی بکریوں اور اپنے دیہات میں ہو اور اذان کہو تو اپنی آواز بلند کر لیا کرو کیونکہ مؤذن کی آواز کو جو جن ، جو انسان اور جو چیز بھی سنتی ہے وہ قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گی۔ ‘‘[1] (۳) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کو لے کر نکلے ، آپ کا ارادہ عکاظ کے بازار کو جانے کا تھا، اور ادھر شیاطین اور آسمان سے آنے والی خبروں کے درمیان رکاوٹیں پیداکردی گئی تھیں اور ان (شیطانوں ) پر ستارے ٹوٹنے لگ گئے تھے، چنانچہ جب وہ اپنی قوم کے پاس خالی واپس آتے تو اسے آکر بتاتے کہ ہمیں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور ہم پر شہابِ ثاقب کی مار پڑنے لگ گئی ہے، تو وہ آپس میں کہتے کہ ایسا کسی بڑے واقعہ کی وجہ سے ہو رہا ہے لہٰذامشرق و مغرب میں جاؤ اور دیکھو کہ یہ رکاوٹیں کیوں پیدا ہو رہی ہیں ؟ چنانچہ تھامہ کا رخ کرنے والے شیاطین (جنات) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نخلہ میں تھے اور عکاظ میں جانے کاارادہ فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی، ان جنات کے کانوں میں قرآن کی آواز پڑی تو وہ اسے غور سے سننے لگ گئے اور کہنے لگے:اللہ کی قسم! یہی وہ چیز ہے جو ہمیں آسمان کی خبریں سننے سے روک رہی ہے، سو یہ اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور ان سے کہنے لگے:’’ہم نے عجیب وغریب قرآن سناہے، جوکہ بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اپنے پروردگار کے ساتھ کبھی شرک نہیں کریں گے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ﴿قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ﴾ کو اتار دیا اور جنوں کی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کردیا گیا۔‘‘[2] (۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرشتوں کو نور سے ،جنوں کو آگ کے شعلے سے اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہارے لئے بیان کردی گئی ہے۔‘‘ [3]
Flag Counter