Maktaba Wahhabi

321 - 728
سورۂ فاتحہ ضرور پڑھنا چاہیے اور سنن نسائی کی زیادت کی رو سے سورۃ بھی ملا سکتے ہیں ۔ لا محیص عن المصیر إلی ذلک لأنھا زیادۃ خارجۃ من مخرج صحیح۔ ’’السراج الوہاج من کشف مطالب صحیح مسلم بن الحجاج‘‘ میں ہے: ’’قال: الإمام الرباني الشوکاني في السیل الجرار: صلاۃ الجنازۃ صلاۃ من الصلوات التي قال فیھا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فیما صح عنہ: (( لا صلاۃ إلا بفاتحۃ الکتاب )) وھذا یکفي في کونھا فرضا في صلاۃ الجنازۃ، بل في کونھا شرطا یستلزم عدمھا عدم الصلاۃ، فکیف وقد ثبت في الصحیح عنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم أنہ کان یقرأ في صلاۃ الجنازۃ فاتحۃ الکتاب، قال: وینبغي أن یعمد إلی سورۃ قصیرۃ فیقرأھا، نعم لا یشتغل بغیر الدعاء للمیت بعد تکبیرۃ بما ورد وبما لم یرد فھذا ھو المقصود من صلاۃ الجنازۃ‘‘[1] انتھی یعنی امام شوکانی عالم ربانی نے سیل جرار میں کہا ہے کہ نمازِ جنازہ ایک نماز ہے، ان نمازوں میں سے جن کی شان میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی ہے کہ بغیر فاتحہ پڑھنے کے کوئی نماز نہیں ہوتی، پس یہ حدیث نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کے فرض، بلکہ اس کے شرط ہونے کے واسطے جو عدمِ فاتحہ سے عدمِ صلاۃ کو مستلزم ہو، کافی ہے، کیونکر یہ بات نہ ہو، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہوچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کی نماز میں سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ امام شوکانی نے یہ بھی کہا ہے کہ سورت فاتحہ کے ساتھ کسی قدر اور قرآن مجید بھی بانداز یسیر ملا لیا کرے اور وہ بھی کوئی چھوٹی سی سورت پڑھ لیا کرے، ہاں پھر تکبیر کے بعد میت کے حق میں دعاے ماثور پڑھنے کے سوا کوئی شغل نہ کرے، کیونکہ نمازِ جنازہ سے بھی دعا ہی تو مقصود ہے۔ انتھٰی ھذا الذي قالہ الإمام الشوکاني ھو الحق الحقیق الذي بلغ غایۃ التحقیق۔ اب رہی یہ بات کہ سورت فاتحہ و سورۃ سراً چاہیے یا جہراً؟ سو اس کی نسبت لکھنا، اُس جملہ کا جو غطیف بن حارث سائل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت فی صلاۃ اللیل کے جہر یا خَفْت سے سوال کے دربارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے جواب ’’ربما جھر بہ وربما خفت‘‘ میں کہا تھا، خالی از مناسبت نہیں ہے۔ وہ جملہ یہ ہے: ’’الحمد للّٰه الذي جعل في الأمر سعۃ‘‘[2] غرضکہ سراً و جہراً ہر دو وجہ سے پڑھ سکتے ہیں ، اس سے کوئی مانع شرعی و عقلی موجود نہیں ہے، بلکہ دونوں باتیں احادیث سے ثابت ہیں ۔ سراً پڑھنے کے واسطے یہ حدیث جو بروایتِ ثقات نسائی میں ہے، دلیل ہے: عن أبي أمامۃ قال: السنۃ في الصلاۃ علی الجنازۃ أن یقرأ في التکبیرۃ الأولیٰ بأم القرآن
Flag Counter