Maktaba Wahhabi

417 - 728
جواب: حقیقی بھانجی کی بیٹی بھی حقیقی بھانجی کے حکم میں داخل ہے، یعنی حقیقی بھانجی کی بیٹی سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه بھانجے کی بیٹی سے نکاح کا حکم: سوال: زید اپنے بھانجے کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز یہ کہ تفسیر جلالین میں ’’بنات الأخ وبنات الأخت ویدخل فیھن بنات أولادھم‘‘[1] [بھتیجیاں اور بھانجیاں اور ان میں ان کی اولاد کی بیٹیاں بھی شامل ہیں ] ہے، اس سے صرف بھانجی و بھتیجی کی لڑکیاں مراد ہیں یا اس میں بھتیجی بھانجی و بھتیجا و بھانجا کی لڑکیاں بھی مراد ہیں ؟ منشی عبدالرحمن از مقام ماگوار۔ ڈاکخانہ دوریہ۔ دینا جپور (بنگالہ) جواب: زید اپنے بھانجے کی لڑکی سے نکاح نہیں کر سکتا، اس لیے کہ بانجھے کی لڑکی ’’بنات الأخت‘‘ میں داخل ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح ’’بناتکم‘‘ میں اپنی پوتیاں ، پروتیاں ، نواسیاں جہاں تک نیچے ہوں ، داخل ہیں ، اُسی طرح ’’بنات الأخ وبنات الأخت‘‘ میں بھائی اور بہن کی پوتیاں ، پروتیاں اور نواسیاں ، پرنواسیاں جہاں تک نیچے ہوں ، سب داخل ہیں اور تفسیرِ جلالین کی عبارت سے صرف بھانجی و بھتیجی کی لڑکیاں مراد نہیں ہیں ، بلکہ بھانجا و بھتیجا کی لڑکیاں بھی مراد ہیں ۔ ’’الفتوحات الآلہیہ معروف بحاشیۃ سلیمان الجمل علی الجلالین‘‘ میں ہے: ’’(قولہ ویدخل فیھن) أي في بنات الأخ والأخت، وقولہ: أولادھم أي أولاد الأخ والأخت۔۔۔ ولعلہ جمع الضمیر باعتبار إطلاق الجمع علی ما فوق الواحد، والأولاد یشمل الذکور والأناث، فشملت العبارۃ بنت ابن الأخ وإن سفل، وبنت ابن الأخت وإن سفل‘‘[2] اھ [اس کا یہ قول: ’’ویدخل فیھن‘‘ (اور ان میں داخل ہیں ) یعنی بھتیجوں اور بھانجیوں میں داخل ہیں ۔ اس کا قول: ’’أولادھم‘‘ (ان کی اولاد) یعنی بھائی اور بہن کی اولاد۔۔۔ شاید مصنف جمع کی ضمیر اس لیے لائے ہیں کہ جمع کا اطلاق ایک سے اوپر پر ہوتا ہے اور اولاد کا لفظ مذکروں اور مونثوں سب کو شامل ہے، پس یہ عبارت بھتیجے کی بیٹی کو نیچے تک اور بھانجے کی بیٹی کو نیچے تک شامل ہے] ’’موضح القرآن‘‘ میں ہے: ’’بھتیجی میں بھائی کی بیٹی پوتی نواسی سب داخل ہیں ۔ اسی طرح بھانجی میں بہن کی بیٹی، پوتی، نواسی۔‘‘[3] و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۳؍ ذي قعدہ ۱۳۳۴ھ)
Flag Counter