Maktaba Wahhabi

753 - 728
اس لیے وہ مرحومہ کا ترکہ نہیں ہے، البتہ جو زیور مرحومہ کو والدین کی طرف سے ملا تھا، وہ مرحومہ کا ترکہ ہے، پس خاوند زید یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا زیور وغیرہ الگ کر کے باقی ماندہ مال میں سے رقم حج نکالے گا، پھر جو بچے گا، اس میں سے نصف والدِ مرحومہ کے حوالے کرے گا۔ جناب والا کی خدمت میں التماس ہے کہ شرعی فتوی مندرجہ ذیل امور کی نسبت تحریر فرمائیں : مرحومہ کا ترکہ کیا ہے؟ صرف وہ زیور اور پارچہ جات جو اس کو والدین کے ہاں سے ملے یا وہ زیور بھی ترکہ میں داخل سمجھا جائے گا، جو خاوند نے اس کو وقتاً فوقتاً بنوا کر دیا، مگر اس کی ملک نہیں کیا؟ وصیت تقسیم کرنے سے پہلے پوری کرنی چاہیے؟ باپ اور خاوند کا کس قدر حصہ ہوگا؟ مسکین: ڈاکٹر عبدالرحیم سب اسسٹنٹ سرجن۔ محلہ اقبال گنج، شتر خانہ، لودھیانہ جواب: مرحومہ کا ترکہ صرف وہ زیور و پارچہ جات ہیں ، جو اس کو اس کے والدین کے ہاں سے ملے، بشرطیکہ خاوند نے جو زیور اس کو وقتاً فوقتاً بنوا کر دیا، اس کے دینے کے وقت تصریح کر دی ہو کہ یہ زیور تم کو مستعار دیتا ہوں ، تمھاری ملک نہیں کرتا اور اگر تصریح نہ کی ہو تو ایسی صورت میں رواج پر فیصلہ ہوگا، یعنی اگر یہ رواج ہو کہ زیور جو خاوند دیتا ہے، وہ بھی زوجہ کی ملک سمجھا جاتا ہے تو زیور مذکورہ بالا مرحومہ کی ملک اور مرحومہ کے ترکہ میں داخل سمجھا جائے اور اگر زیور جو خاوند دیتا ہے، مستعار سمجھا جاتا ہے تو زیور مذکورہ بالا مرحومہ کے ترکہ میں داخل نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ وہ خاوند کی ملک ہوگا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ وصیت تقسیم ترکہ سے پہلے پوری کرنی چاہیے، مگر صرف تہائی ترکہ سے اور وہ بھی اس ترکہ کی تہائی سے جو مرحومہ کی تجہیز و تکفین سے و نیز ادائے دین سے (اگر مرحومہ پر کسی کا کچھ دَین آتا ہو) بچ رہے، بشرطیکہ ورثہ تہائی سے زیادہ وصیت پوری کرنے پر راضی نہ ہوں ، ورنہ جس قدر تہائی سے زیادہ سے وصیت پوری کرنے پر راضی ہوں ، اس قدر سے وصیت تقسیمِ ترکہ سے پہلے پوری کرنی چاہیے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ وصیت پوری کرنے کے بعد جس قدر بچ رہے، اس میں سے نصف باپ کا حصہ ہے اور نصف خاوند کا، اگر مرحومہ نے اولاد نہ چھوڑی ہو۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۳؍ محرم ۱۳۳۵ھ) حقیقی بھائی، دو علاتی بھائی اور ایک علاتی بہن: سوال: غلام قادر مرگئے، وارث چھوڑا: شیخ خیراتی برادر حقیقی اور عبدالرشید و عبد الصمد برادران علاتی اور مسماۃ بتولن ہمشیرہ علاتی کو، ترکہ ان کا کس قدر کن کو پہنچا؟ راقم: عبدالرشید ساکن بکسر، محلہ خلاصی ٹولہ جواب: اس صورت میں (بعد تقدیم ما تقدم علی الإرث ورفع موانعہ) کل ترکہ غلام قادر کا شیخ خیراتی برادر حقیقی کو پہنچا اور کسی کو نہیں ۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
Flag Counter