Maktaba Wahhabi

106 - 728
کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تو ان سے ایک ہمسایہ کہے کہ وہ یہ مسجد اسے دے دیں ، تاکہ اس (جگہ) کو اپنے گھر میں شامل کر لے اور وہ اس کے بدلے میں انھیں اس سے بہتر جگہ دے دے، جو اہلِ محلہ کے لیے کافی ہو، امام محمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان کے لیے اس عمل کی گنجایش نہیں ہے] (صفحہ : ۵۴۸) میں ہے:"في وقف الخصاف: إذا جعل أرضہ مسجداً و بناہ، وأشھد أن لہ إبطالہ وبیعہ، فھو شرط باطل، ویکون مسجداً"[1] اھ[جب ایک شخص اپنی زمین مسجد کو دے دے اور اس کو تعمیر کرے اور گواہ بنائے کہ وہ اس کو ختم بھی کر سکتا اور بیچ بھی سکتا ہے تو یہ شرط باطل ہے اور وہ مسجد ہی رہے گی] نیز اسی صفحہ میں ہے: "وإذا خرب المسجد، واستغنیٰ أھلہ، و صار بحیث لا یصلی فیہ، عاد ملکا لواقفہ أو لورثتہ، حتی جاز لھم أن یبیعوہ أو یبنوہ دارا، وقیل: ھو مسجد أبداً، وھو الأصح، کذا في خزانۃ المفتین۔ في فتاویٰ الحجۃ: لو صار أحد المسجدین قدیما، وتداعیٰ إلی الخراب فأراد أھل السکۃ بیع القدیم، وصرفہ في المسجد الجدید فإنہ لا یجوز۔۔۔ الخ"[2] [جب مسجد ویران ہوجائے اور وہاں رہنے والے اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ وہاں نماز بھی نہیں پڑھی جاتی تو وہ اس کو وقف کرنے والے یا اس کے ورثا کی دوبارہ ملکیت بن جائے گی، حتی کہ ان کے لیے اسے بیچنا یا اسے گھر بنانا جائز ہوگا، لیکن ایک قول کے مطابق وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی اور یہی زیادہ صحیح ہے، جیسا کہ "خزانۃ المفتین" میں ہے۔ فتاویٰ الحجہ میں ہے کہ اگر دو مسجدوں میں ایک بہت پرانی ہوجائے اور ویرانی کا شکار ہوجائے تو محلے والے چاہیں کہ پرانی کو بیچ کر اس (کی آمدنی) کو نئی مسجد میں صَرف کر دیں تو یہ جائز نہیں ہے] ایک مسجد کو گرا کر دوسری جگہ پر مسجد تعمیر کرنا سوال: ایک مسجد واقع بڑھیٔ ٹولہ قریب اسٹیشن ریلوے مظفر پور ایک مدت دراز سے قائم ہے۔ اب سرکار چاہتی ہے کہ برضامندی اہلِ اسلام مسجد مذکور کو توڑ کر سڑک ریلوے درست کرے اور معاوضہ میں اس کے جیسی مسجد مسلمانان جس قدر خرچ سے جہاں کہیں تعمیر کرانا چاہیں گے، سرکار بنوا دے گی اور بصورت نہ راضی ہونے مسلمانوں کے وہ مسجد حسبِ دفعہ ایکٹ ۱۰؍ ۱۸۷۰ء بضرورت سرکار توڑ دی جائے گی۔ پس ایسی مجبوری میں شریعت سے جو حکم ہو، صاف صاف بحوالہ کتب و صفحہ و سطر وغیرہ کے تحریر فرمائیے۔ بینوا تؤجروا۔ فقط المستفتي: مولوی محمد عبدالجلیل محمدی مظفر پوری
Flag Counter