Maktaba Wahhabi

622 - 728
جائز حق کو ناجائز طریقے سے وصول کرنا: سوال: اگر کسی شخص کا حق جائز ہو، مگر وہ کسی وجہ سے نہ وصول کر سکے۔ آیا اس جائز حق کو کسی ناجائز طریقے سے وصول کر سکتا ہے یا نہیں ؟ مثلاً: زید کا لگان بذمہ بکر عرصہ تیس سال سے باقی ہے، مگر قانوناً علتِ تمادی سے زید کو اُس کا روپیہ نہیں مل سکتا اور بکر دینے سے منکر ہے۔ کیا زید اتنی مدت کا روپیہ جس پر تمادی عارض نہیں ہوتی، مع سود نالش کر سکتا ہے یا نہیں جس سے تمام روپیہ اپنا وصول کر سکے؟ اس حیلے سے وصول کرنے والا آکلِ ربا ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ جواب: اگر زید ایسی صورت میں اتنی مدت کے روپے کی جس پر تمادی قانونی عارضی نہیں ہوئی ہے، نالش کرے اور اُس مدت کے روپے کو جس پر تمادی قانونی عارض ہوچکی ہے، سود کے لفظ سے تعبیر کر کے اپنی عرضی نالش مع سود کا لفظ لکھ دے، جس سے وہ قانوناً اپنا تمام روپیہ وصول کر سکے نہ زائد تو اس تعبیر سے اس قدر روپے پر، جس کو بلفظ سود تعبیر کیا ہے، رباے شرعی کی تعریف صادق نہیں آتی، اس لیے کہ روپیہ مذکور زید کا حق جائز ہے، جو بکر پر واجب الادا ہے اور رباے شرعی کوئی حق جائز نہیں ہے، بلکہ محض ناجائز اور قطعاً حرام ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ: ۲۷۵] [اور سود کو حرام کیا] جب روپے مذکورہ پر رباے شرعی کی تعریف صادق نہیں آتی تو اس روپے کا وصول کرنے والا نہ آکل رِبا ہے نہ اُس کو آکل رِبا کہنا جائز ہے اور بوجہ زید کی تاخیر نالش کے تمادی قانونی عارض ہوجانے سے زید کا حق جائز ذمہ بکر سے شرعاً ساقط نہیں ہوا، بلکہ حق مذکور عروض تمادی کے بعد یہی بکر کے ذمہ ویسا ہی واجب الادا ہے، جیسا کہ قبل عروض تمادی کے واجب الادا تھا۔ ہدایہ (۲/ ۱۴۱، مطبع یوسفی انصاری لکھنوی) کے حاشیہ ’’عنایہ شرح ہدایہ‘‘ سے منقول ہے: ’’أو یکون قولا لا دلیل علیہ، کما إذا مضی علی الدین سنون، فحکم بسقوط الدین عمن علیہ، لتأخیر المطالبۃ، فإنہ لا دلیل شرعي یدل علی ذلک، کذا في العنایۃ‘‘[1]انتھی، و اللّٰه تعالیٰ أعلم [یا وہ کوئی ایسا قول ہو جس پر کوئی دلیل نہ ہو، جیسے قرض کو کئی سال گزر چکے ہوں تو مقروض سے قرض کو ساقط کرنے کا فیصلہ دے دیا جائے، کیونکہ مطالبے میں تاخیر واقع ہوئی ہے۔ پس بلاشبہ اس پر کوئی شرعی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے۔ عنایہ میں ایسے ہی ہے] کتبہ: محمد عبد الله (۱۳؍ ربیع الاول ۱۳۳۰ھ) آڑھت کی آمدنی: سوال: زید آڑھت کا کام کرتا ہے اور بکر کا مال اپنی آڑھت میں فروخت کرتا ہے تو بکر کے پاس مال کے آنے پر یا بدون مال کے فروخت ہوئے یا بدون روپیہ خریدار سے وصول ہوئے زید کا روپیہ بکر کو اور آڑھت لینا، یہ آمدنی آڑھت کی سودہوگی یا نہیں ؟
Flag Counter