Maktaba Wahhabi

320 - 728
ساتھ ملانے سے وہ ضعف ختم ہوجاتا ہے] و عن فضالۃ بن أبي أمیۃ قال: ’’قرأ الذي صلیٰ علیٰ أبي بکر و عمر بفاتحۃ الکتاب‘‘[1] (رواہ البخاري في تاریخہ) یعنی فضالہ بن ابی امیہ سے روایت ہے، اس نے کہا کہ جس شخص نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر جنازہ کی نماز پڑھی تھی، اس نے سورۂ فاتحہ کو پڑھا تھا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے۔ پس خلاصہ یہ ہوا کہ صلاۃِ جنازہ میں سورت فاتحہ بلا تردد پڑھ سکتے ہیں ، کیونکہ حدیثِ صحیح سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور حدیثِ صحیح پر عمل کرنے میں کسی کو کلام نہیں ہے، بلکہ سب متفق ہیں ، چنانچہ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی مقدمہ مشکوۃ میں لکھتے ہیں : ’’الاحتجاج في الأحکام بالخبر الصحیح مجمع علیہ‘‘ [احکام میں خبر صحیح کے ساتھ احتجاج کرنے پر اجماع ہے] فقہائے حنفیہ نے بھی بارادہ دعا سورۂ فاتحہ کا پڑھنا جنازہ کی نماز میں جائز لکھا ہے۔ ’’فلو قرأ الفاتحۃ بنیۃ الثناء جاز، کذا في الأشباہ‘‘[2] [پس اگر ثنا کی نیت سے وہ سورۃ الفاتحہ پڑھے تو جائز ہے، ’’الأشباہ‘‘ میں ایسے ہی ہے] مولوی عبدالحی لکھنوی نے شرح وقایہ کے حاشیہ پر قراء ت فی صلاۃ الجنازۃ کے متعلق لکھا ہے: ’’قولہ: خلاف للشافعي فإن عندہ یقرأ الفاتحۃ بعد التکبیرۃ الأولی وھو الأقویٰ دلیلا، وھو الذي اختارہ الشرنبلالي من أصحابنا، وألف فیہ رسالۃ‘‘[3] [اس کا یہ قول کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا اس میں اختلاف ہے۔ پس ان کے نزدیک وہ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھے گا اور دلیل کے اعتبار سے یہی زیادہ قوی بات ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے ’’الشرنبلالی‘‘ نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور اس میں ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ہے] شیخ عبدالرحیم صاحب دہلوی والد شاہ ولی الله صاحب محدث دہلوی بھی اس پر عمل کرتے تھے۔ شاہ ولی الله صاحب نے ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کو جنازہ کی نماز میں لکھا ہے اور کہا ہے: ’’یہ خیر اور اجمع الادعیہ ہے اور حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں اپنے عباد کو سکھلایا ہے۔[4] قاضی ثناء الله صاحب پانی پتی مصنف مالا بد منہ نے اپنے وصیت نامہ میں نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی وصیت کی ہے۔[5] غرض کہ جنازہ کی نماز میں
Flag Counter