Maktaba Wahhabi

94 - 728
حدیثِ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان: سوال: زاد المعاد میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے مطلقہ ثلاثہ کے سکنی اور نان و نفقہ کے متعلق جو بحث کی ہے، اس میں مطعن ثانی کے جواب میں جو یہ عبارت ہے:"وقد أنکر الإمام أحمد ھذا عن قول عمر، وجعل یتبسم، ویقول: أین في کتاب اللّٰه إیجاب السکنیٰ والنفقۃ للمطلقۃ ثلاثا۔۔۔ الخ"[1]اس عبارت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استدلال کا انکار مذکور ہے یا آپ سے ثبوتِ روایت کا انکار ہے؟ جواب: اس عبارت میں محلِ انکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال ہے۔ یہ نہیں کہ روایت، جس کے متعلق مصنف علامہ بحث کر رہے ہیں ، اس کا ثبوت حضرت عمر سے نہیں ۔ اس کی وجوہات حسبِ ذیل ہیں : ۱۔ اس عبارت کے آگے یہ عبارت ہے:"وأنکرتہ قبلہ الفقیھۃ الفاضلۃ فاطمۃ"۔ ظاہر ہے کہ "ہذا" کا مشار الیہ اور "أنکرتہ"میں ضمیر مفعول کا مرجع ایک ہی ہے اور بادنیٰ تامل معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا انکار نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ صحابیہ ہے اور صا حبہ قصہ ہے اور اسی کے ساتھ اس امر میں نزاع ہوا، بلکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استدلال کا انکار کرتی ہیں ۔ پس ’’ہذا‘‘ کا مشار الیہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال ہے۔ ۲۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے مطاعن حدیثِ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی چار قسمیں کر کے ہر ایک کے جواب کے متعلق علیحدہ فصل قائم کی ہے۔ یہ عبارت زیرِ بحث دوسری قسم یعنی مخالفتِ قرآن میں ذکر کی ہے اور چوتھی قسم میں روایتِ مرفوع اور زیادت ’’سنۃ نبینا‘‘ کے متعلق ہے۔ پس اس قسم کے لحاظ سے عبارت زیرِ بحث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استدلالِ قرآنی کا ذکر ہے نہ کہ زیادت ’’سنۃ نبینا‘‘ کا بیان، بلکہ اس کے لیے علیحدہ چوتھی قسم میں بحث کی ہے۔ ابراہیم سیالکوٹی الجواب صحیح۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ایسی صاف عبارت کے مطلب میں بھی اختلاف ہوتا ہے، خصوصاً ایسے علما کا جنھوں نے تعلیم و تعلم و دیگر علمی امور میں اپنی عمریں صَرف کر دیں ۔ محمد عبد الله (غازی پوری) أصاب من جاب۔ عبدالمنان وزیر آبادی عبدالجبار عمر پوری، کان اللہ ، مقیم دہلی کشن گنج صح الجواب۔ شبلی نعمانی لکھنؤ خاکسار کے نزدیک جواب صحیح معلوم ہوتا ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ عبدالاحد خانپوری، عفی عنہ۔ ھذا ھو الصواب۔ شیر علی (مدرس اعلیٰ ندوہ) یظھر جلیا أن إنکار أحمد إنما یتعلق بالمخالفۃ بین الکتاب والسنۃ، کما زعمھا أمیر المؤمنین، وقد أنکرت تلک المخالفۃ قبل أحمدَ فاطمۃُ۔ أما استدلال عمر فلم یسبق لہ في
Flag Counter