Maktaba Wahhabi

740 - 728
﴿ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ﴾ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ [اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے بیٹے نہیں بنایا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه نو مسلم کا کافر باپ کی جائداد میں حصہ: سوال: ایک گاؤں باشندگان اہلِ اسلام کا ہے، اس میں ایک حویلی ایک شخص سراوگی مذہب اہلِ ہنود کی ملکیت سے ہے، اس حویلی ہی کے ایک گوشے میں ان کے پارس ناتھ کا مندر ہے، جس کا دروازہ حویلی کے اندر صحن میں ہے۔ وہ شخص مر گیا، اس کے دو بیٹے ہیں ، ایک مسلمان ہوگیا ہے، جس کے چار لڑکے مسلمان ہیں ، دوسرا ہندو ہی ہے، جس کے ایک لڑکا ہندو ہے۔ آیا متوفی کے مسلمان بیٹے کو اس حویلی کے اپنے حصے کا دعویٰ کرنا جائز ہے؟ (۱۰؍ ربیع الاول ۱۳۳۱ھ مستفتی عبد اللطیف نو مسلم۔ از رتیرہ۔ تحصیل ہانسی۔ ضلع حصار) جواب: صورتِ مسؤلہ میں متوفی کے مسلمان بیٹے کو اس حویلی کے اپنے حصے کا دعویٰ کرنا جائز ہے، اگر اپنے باپ کے مرنے کے بعد مسلمان ہوا ہے، کیونکہ جب باپ کے مرنے کے وقت مسلمان نہیں ہوا تھا تو باپ کے ترکہ کا مستحق ہوگیا، کیونکہ استحقاق ترکہ کا وقت موت کا وقت ہے اور جب موت کے وقت مسلمان نہیں ہوا تھا تو اس میں اور باپ میں اختلاف دین اور ملت کا نہ تھا، جو مانع ارث ہے۔ پس مسلمان بیٹا اس صورت میں اپنے متوفی باپ کے ترکہ کا ضرور مستحق ہے، لہٰذا اس کو اس حویلی کے اپنے حصے کا دعویٰ کرنا جائز ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۷؍ ربیع الأول ۱۳۳۱ھ) الجواب صحیح والمجیب نجیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه المؤی۔ (۱۷؍ ربیع الأول ۱۳۳۱ھ) أصاب من أجاب۔ کتبہ: أبو یوسف محمد عبدالمنان وفا غازیپوری، مدرس مدرسہ ریاض العلوم دہلی۔ الجواب صحیح۔ محمد لطف الرحمن۔ من یرد اللّٰه بہ خیرا یفقہ في الدین۔ کتبہ: عبد العزیز مبارکپوری (۱۷؍ ربیع الأول ۱۳۳۱ھ) میت کی خلافِ شرع تقسیم کالعدم ہو گی: سوال: زید کے تین لڑکے مثلاً عمرو، بکر، خالد و چار لڑکیاں مثلاً ہندہ، بتول، آسیہ، آمنہ ہیں ۔ زید نے اپنی زندگی میں اپنا مال کل جائداد تین حصے کر کے اس میں سے ایک حصہ بڑے لڑکے عمرو کو دے کر علیحدہ کر دیا اور بقیہ دو حصہ بکر و خالد کو دیا۔ وہ دونوں ، یعنی بکر و خالد ایک جا کاروبار کرنے لگے اور دونوں کے باپ و ماں ، یعنی زید و ماں مریم نے بکر و خالد کے شامل زندگی بسر کیا، جس کا زمانہ عرصہ پچیس برس کا ہوتا ہے۔ بعدہ منجھلے بھائی بکر نے چھوٹے بھائی خالد کی شادی وغیرہ کر دیا، جس کو زمانہ نو یا دس برس کا ہوتا ہے۔ چھوٹے بھائی خالد نے رحلت کیا اور اپنا ترکہ منجھلے بھائی بکر کی شرکت میں چھوڑا اور ماں مریم کو اور بیوی خاتون کو بھی چھوڑا، ان دونوں کا نان و نفقہ بکر دیتا ہے اور عمرو نان و نفقہ دینے سے، یعنی مریم و خاتون کے انکار کرتا ہے اور کوئی اولاد خالد مرحوم کی نہیں ہے۔ پس ایسی حالت میں بڑا بھائی عمرو جو اپنے والد کی زندگی سے جدا تھا، چھوٹے بھائی خالد کے مال متروکہ کا وارث اور حقدار ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
Flag Counter