Maktaba Wahhabi

322 - 728
مخافتۃ۔[1]الحدیث یعنی میت پر نماز پڑھنے میں سنت یوں ہے کہ تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ کو آہستہ سے پڑھا جائے۔ اور جہراً پڑھنے کے واسطے بھی بروایتِ ثقات مروی ہے: عن طلحۃ بن عبد اللّٰه بن عوف قال: صلیت خلف ابن عباس علیٰ جنازۃ فقرأ بفاتحۃ الکتاب و سورۃ، جھر حتی سمعنا، فلما فرغ أخذت بیدہ فسألتہ فقال: سنۃ وحق۔[2] دوسرے طریق میں ہے: ’’فلما انصرفت أخذت بیدہ فسألتہ فقلت: تقرأ؟ قال: نعم، إنہ حق وسنۃ‘‘[3] یعنی طلحہ بن عبد الله بن عوف سے مروی ہے، کہا کہ میں نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے میت پر جنازہ کی نماز پڑھی، انھوں نے سورۂ فاتحہ اور کسی سورۃ کو ایسا جہراً پڑھا کہ ہم نے سنا، فارغ ہونے کے بعد میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر قراء ت جہراً پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا، جواب دیا کہ یہ سنت و حق ہے۔ جہر بالقراء ت کی یہ حدیث ابو داود کی بھی موید ہے: عن واثلۃ بن الأسقع قال: صلیٰ بنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم علی رجل من المسلمین فسمعتہ یقول: اللّٰهم إن فلان بن فلان في ذمتک۔۔۔ )) [4]الحدیث [واثلہ بن الاسقع بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک آدمی کی نمازِ جنازہ کی امامت کرائی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پڑھتے ہوئے سنا: اے الله ! فلاں بن فلاں تیرے ذمے میں ہے۔۔۔] عون الباری شرح تجریدِ بخاری میں ہے: ’’قال الشوکاني في السیل: قد ورد الجھر، فأخرج البخاري وغیرہ عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما أنہ صلیٰ علی جنازۃ، فقرأ بفاتحۃ الکتاب، وقال: لتعلموا أنھا سنۃ، ومعلوم أن قراء تہ ھذہ لا تکون إلا جھرا، حتی سمع ذلک من صلیٰ معہ، وزاد النسائي بعد فاتحۃ الکتاب سورۃ، وذکر أنہ جھر، ولفظہ ھکذا: فقرأ بفاتحۃ الکتاب، و سورۃ، وجھر، و یؤید ذلک ما ثبت في صحیح مسلم وغیرہ من حدیث عوف بن مالک قال: صلیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم علی جنازۃ فحفظنا من دعاۂ ۔۔۔ الحدیث، فإن ھذا یدل أنہ جھر بالدعاء، فلا وجہ لجعل المخافتۃ مندوبۃ، وإن ورد في حدیث أبي أمامۃ بن سھل أنہ أخبرہ رجل
Flag Counter