Maktaba Wahhabi

53 - 280
لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ہے کہ جو کوئی اس حالت میں مرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ أبُوءُ لكَ بنِعْمَتِكَ عَلَيَّ:…اور مجھ پر جو تیری نعمتیں ہیں ان کا اعتراف و اقرار کرتا ہوں ۔ ’’أبوء‘‘کا ترجمہ اقرار سے کیا ہے۔ اصل میں اس کامعنی ہے :لازم پکڑنا یا قرار پکڑنا۔ کہا جاتا ہے: ’’بواہ ا للّٰه منزلًا‘‘اللہ تعالیٰ نے اسے ٹھکانہ دیا۔ یہ جملہ اس وقت بولا جاتا جب کہیں پر انسان کو سکو ن کے ساتھ ٹھکانہ مل جائے۔ وأَبُوءُ بذَنْبِي:…اور میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں ۔اس کا معنی یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کو تسلیم کرتا ہوں ، اور اسے اپنے آپ سے دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ اس دعا میں پہلے اعتراف کیا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ مگر اس انعام کو مقید نہیں کیا تاکہ ہر قسم کی نعمت کو شامل ہو۔ پھر اس کے بعد اپنی کوتاہی کا اعتراف ہے کہ اس نے اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا نہیں کیا، اس کوتاہی کو اپنے اعتراف میں مبالغہ کے طور پر کسرِ نفسی میں گناہ شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وأَبُوءُ بذَنْبِي میں مطلق طور پر گناہ کے صادر ہونے کا اعتراف ہے تاکہ توبہ واستغفار صحیح ہو۔ایسا نہیں ہے کہ وہ مطلق طور پر اپنی کوتاہیوں کو شمار کرتا ہے(کیونکہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور غلطیوں کو شمار کرنا نا ممکن ہے)۔ فاغْفِرْ لِي، فإنَّه لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلّا أنْتَ:…اس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ جو انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرے، اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ جس کے متعلق ایک بہت لمبی وضاحت حدیث افک میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ جس نے دن کے کسی وقت میں یہ کلمات کہے ؛ جب کہ سنن نسائی کی روایت کے مطابق صبح کے وقت یہ کلمات کہے۔ یعنی اخلاص دل کے ساتھ،اور ان کے ثواب پر ایمان رکھتے ہوئے؛ اور اس کے تمام مدلولات پر اجمالاً و تفصیلاً ایمان رکھتے ہوئے کہے۔ اورپھر اس دن وہ شام (سورج غروب )ہونے سے پہلے مر گیا تووہ
Flag Counter