Maktaba Wahhabi

51 - 280
ابن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس حدیث میں تمام الفاظ ومعانی ایسے بدیع و خوبصورت ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ دعا سید الاستغفار کہلانے کی مستحق ہوجاتی ہے۔ اس دعا میں اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی توحید کا اقرار اور صرف اسی کے لیے عبودیت کا اثبات ہے۔ اور اس کے خالق (ومالک) ہونے کا اعتراف ہے۔اور اس عہد کا اقرار ہے جو اللہ تعالیٰ نے (روز ازل میں ) بندوں سے (صرف اپنی عبادت کرنے اور توحید بجالانے کے لیے ) لیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ سے ان وعدوں کے پورا ہونے پر اس اجر و ثواب کی امید ہے جس کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اور اس چیز سے پناہ طلب کی ہے انسان اپنے نفس پر جو بھی ظلم کرتا ہے۔ اس دعا میں نعمتوں کو ان کے پیدا کرنے والے کی طرف منسوب کیا گیا ہے جب کہ گناہوں کی نسبت انسان کے اپنے نفس کی طرف ہے؛ اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت میں بہت بڑی امید بھی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی ہے کہ اس چیز پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا ذرا بھر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ یہ سیدالاستغفار ایک جامع دعا ہے انسان پر واجب ہے کہ اس کا اقرار واعتراف کرے، اوران کلمات کے ساتھ دعا و استغفار کرے۔ (جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ) لفظ مخاطب کے صیغہ کے ساتھ ہے کہ :’’أن تقول‘‘ یہ کہ تم کہو۔یہ ہر ایک کے لیے عام خطاب ہے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یہ دعا اپنی تمام فروع میں مخاطب کے صیغہ کے ساتھ ہے (جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دعا ہر ایک کے لیے ہے)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سید الاستغفار یہ ہے کہ انسان کہے: ((لا إلَهَ إلّا أنْتَ، خَلَقْتَنِي)) اوربعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : ((لا إلَهَ إلّا أنْتَ، أنْتَ خَلَقْتَنِي)) یہ کہنا کہ خَلَقْتَنِي تونے مجھے پیدا کیا ہے، یہاں سے دوبارہ تربیت و پرورش کا بیان شروع ہوتا ہے۔
Flag Counter