Maktaba Wahhabi

29 - 280
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’ الاذکار ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ یہی بات ابن سَنی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ جہراً کہنے سے مقصود یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا آپ سے سنے اور اس کی تعلیم حاصل کرسکے۔ واللہ اعلم ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ یہ روایت سماعت پر مبنی ہے۔ اور ایسا اسی وقت ممکن ہوسکتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمات بلند آواز میں کہیں ( تاکہ آپ سے کوئی دوسرا سن کر تعلیم حاصل کرے، اور ان کلمات کو یاد کرسکے)۔جیسا کہ اذان میں شہادتین کے وقت آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ أنا أنا ‘‘ ( ’’میں میں ‘‘ یعنی بے شک میں اللہ کا رسول ہوں ) علامہ ابن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’ الامالی ‘‘میں ارشاد فرمایا ہے : ’’ ایسے کلمات ان معانی میں استقرار اور تمکن پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ مجسم جب کسی چیز پر غالب آجاتا ہے تووہ جگہ پاتا ہے، اورقرار پکڑلیتاہے۔ على مِلَّةِ أبِينا إبراهيمَ :…اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام اہل عرب کے باپ ہیں ۔ اور خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بھی حضرت اسمٰعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد سے ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا باپ بتایا۔ یا اس بنا پر کہ انبیاء کرام علیہم السلام والد کے مقام پر ہوتے ہیں ۔ اسی لیے فرمان الٰہی ہے : ﴿ النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ (الاحزاب:۶) ’’پیغمبر تو مسلمانوں پر خود ان سے زیادہ مہربان ہے اور پیغمبر کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ۔‘‘ ایک شاذ قرأت میں ہے ’’وَھُوَ أب لھُمْ‘‘…’’ اوروہ ان کے باپ ہیں ‘‘ پس اس لیے نبی کا باپ امت کا بھی باپ ہوگا۔اور یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
Flag Counter