Maktaba Wahhabi

241 - 280
یہ ان سب کے درمیان مشترک معاملہ جیسا کہ کفار سے جہاد،آپس میں مشورہ سے ہوتا ہے۔ جب حکمران جہاد کرنے کا ارادہ کرے ؛ یا کوئی دیگر اس طرح کاکام کرے، جو کہ عام مسلمانوں کے لیے ہو، تو اسے چاہیے کہ ان سے مشورہ کرلے۔ سوال یہ ہے کہ مشورہ کب اور کیسے ہوگا؟ جواب:…جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں حاکم متردد ہو،اسے چاہیے کہ اصحاب رائے اور اہل لوگوں میں سے ان کو جمع کرے جنہیں وہ مشورہ کے قابل سمجھتا ہے؛ اورمشورہ لے۔ جب کہ استخارہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب انسان کسی ایسے کام کا ارادہ کرے جس کی عاقبت کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو۔ اور نہ ہی اسے اس کے مستقبل کے بارے میں کچھ علم ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلے۔ استخارہ کا مطلب ہے کہ دوکاموں میں سے بہتر کی تلاش۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان دو رکعت نفل نماز پڑھے،جوکہ ممنوعہ اوقات میں نہ ہو، سوائے اس کے کہ کسی معاملہ کے متعلق خوف ہو کہ ممنوعہ وقت ختم ہونے سے پہلے یہ معاملہ بھی ختم نہ ہوجائے؛ اس کے لیے اگر ممنوعہ وقت میں بھی استخارہ کی دو رکعت پڑھ لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔نماز عصر کے بعد (مغرب تک)، نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور زوال کے وقت استخارہ کی نماز نہیں پڑھنا چاہیے۔ جب انسان استخارہ کے لیے دو رکعت نماز پڑھ لے تو پھر اسے یہ دعا کرنی چاہیے: (( اللَّهُمَّ إنِّي أسْتَخِيرُكَ بعِلْمِكَ)) جب استخارہ پورا ہوجائے تو دو کاموں میں سے جس کے کرنے یا چھوڑ دینے کے لیے شرح صدر حاصل ہوجائے، وہی اصل میں مقصود ہے۔ اور اگر ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی شرح صدر نہ ہو،اور معاملہ ایسے ہی متردد باقی رہ جائے، تو اسے چاہیے کہ دوبارہ؛ سہ بارہ استخارہ کرے۔پھر اس کے بعد مشورہ کا نمبر آتا ہے۔ اگر استخارہ سے کسی بھی کام کے لیے شرح
Flag Counter