Maktaba Wahhabi

121 - 280
متعلق نہیں ، بلکہ شرعی لحاظ سے معتبر ہونے کے متعلق ہے۔ یعنی ایسے انسان کا وضو صحیح نہیں ،یا اس نے کامل وضو نہیں کیا جس نے بِسْمِ اللّٰهِ نہیں کہی۔ جب وضو صحیح نہیں ہے، تو اس وضو کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز بھی صحیح نہیں ہوگی۔اورصحیح نہ ہونا ایسے ہی جیسے کہ بالکل معدوم ہونا۔ اسے بالکل معتبر نہیں سمجھا جائے گا۔ یہیں سے علماء کرام کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ اس بارے میں کوئی بھی حدیث صحیح ثابت نہیں ہے۔پس اس وجہ سے جو کوئی وضو کے شروع میں بِسْمِ اللّٰهِ نہ کہے، ہم اس کے وضو کے باطل ہونے کا حکم نہیں لگا سکتے۔اور اس کے ساتھ ہی کسی کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ بِسْمِ اللّٰهِ کہنا ترک کردے خواہ اس کے بارے میں کوئی ضعیف حدیث ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ اس سے مقصود اس کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرناہے۔اور اس کی تائید اس دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’ ہر وہ بڑا کام جس کے شروع میں اللہ کانام نہ لیا جائے وہ برکت سے خالی ہوتاہے۔‘‘ پس اس لیے ہم وضو کو برکت سے خالی اورکٹا ہوا نہیں بنا سکتے۔بلکہ ہم اس پر اللہ کا نام لیں گے۔ تاکہ ہمارا وضو پورا ہوجائے، وللّٰہ الحمد.‘‘ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ جو انسان جان بوجھ کر بِسْمِ اللّٰهِ کہنا ترک کر دے ، وہ دوبارہ وضو کرے گا، اور جو کوئی تاویل کی وجہ سے بھول کر بِسْمِ اللّٰهِ نہ کہے اس کے لیے یہ وضو کافی ہوجائے گا۔‘‘ حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث دلیل ہے کہ بِسْمِ اللّٰهِ کہنا یا تو وضو کا رکن ہے، یا شرط۔اور یہ
Flag Counter