اتت رجلا قد یعلم اللّٰہ أنّہ یجولہ کف قلیل غرارہا ’’وہ اونٹنی ایسے شخص کے پاس پہنچی جس کا دستِ سخاوت اللہ کے علم میں دھوکہ نہیں دیتا۔‘‘ تو نے’’قد یعلم اللّٰہ‘‘ کے بجائے ’’قد یعلم الناس‘‘ کیوں نہیں کہا؟ ابن قیس نے ان سے کہا: اللہ کی قسم یہ چیز اللہ کو معلوم ہے، تمھیں بھی معلوم ہے اور لوگوں کو بھی معلوم ہے۔[1] عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی تعریف میں شماخ بن ضرار نے کہا: إنک یا ابن جعفر نعم الفتی و نعم ماوی طارق إذا أتی[2] ’’اے ابن جعفر! آپ کتنے اچھے نوجوان ہیں، اور رات کو آنے والے کے لیے کتنی اچھی پناہ گاہ ہیں۔‘‘ و رب ضیف طرق الحی سری صادف زادا و حدیثا ما اشتہی[3] ’’بہت سے مہمان جو رات میں قبیلے میں پہنچتے ہیں تو وہ من پسند کھانا اور اچھی گفتگو پاتے ہیں۔‘‘ ایک بدوی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا جب کہ انھیں بخار تھا، چنانچہ کہنے لگا: کم لوعۃ للندی و کم قلق للجود والمکرمات من قلقک ’’آپ کی پریشانی و تپش کے باعث جود و سخا اور داد و دہش کو کتنی پریشانی و تپش ہے۔‘‘ البسک اللّٰہ منہ عافیۃ فی نومک المعتری و فی أرقک ’’سوتے جاگتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے عافیت عطا کرے۔‘‘ أخرج من جسمک السقام کما أخرج ذم الفعال من عنقک ’’آپ کی جسمانی بیماری آپ سے دور کردے جس طرح بری عادتوں کو آپ سے دور کردیا ہے۔‘‘ |
Book Name | سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | ڈاکٹر لیس محمد مکی |
Volume | |
Number of Pages | 548 |
Introduction |