Maktaba Wahhabi

290 - 548
حزناہ (ہائے مصیبت، ہائے غم) کہہ رہے تھے، تو ان سے حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اے چچا جان! آپ کو کس چیز کا غم ہے؟ انھوں نے جواب دیا: اے نواسۂ رسول! مجھ پر ساٹھ ہزار درہم قرض ہے، میں اسے ادا نہیں کرسکا ہوں، اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمھاری جانب سے اسے ادا کردوں گا، ان سے اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے نواسۂ رسول! اللہ آپ کی مشکلوں کو آسان کرے، بلاشبہ اللہ کو علم ہے کہ رسالت کہاں موزوں رہے گی۔[1] لوگ حسن رضی اللہ عنہ کی سخاوت کی شہادت دیتے تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک بدوی مدینہ آکر لوگوں سے مانگ رہا تھا، اس سے کہا گیا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ یا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس، اس کی ملاقات سعید بن عاص رضی اللہ عنہ سے ہوئی چنانچہ انھو ں نے اسے اس کی چاہت کے مطابق دے دیا۔[2] حسن رضی اللہ عنہ کی سخاوت کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ان سے پوچھا گیا: کس کی زندگی سب سے بہتر ہے؟ آپ نے جواب دیا: جو اپنی زندگی میں دوسروں کو شریک کرے، ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بُرا آدمی کون ہے؟ آپ نے جواب دیا: جس کی زندگی میں کوئی شریک و ساجھی نہ ہو۔[3] حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا: آپ فاقہ کے باوجود کسی سائل کو کیوں واپس نہیں کرتے ہیں ؟ جواب دیا: میں اللہ ہی سے سوال کرتا ہوں، اسی کو چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھ میں یہ عادت ڈال دی ہے کہ وہ مجھے اپنی نعمتیں نوازتا رہتا ہے، اور میں اس کی نعمتیں لوگوں کو دیتا رہتا ہوں، میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے دینا بند کردیا تو اللہ تعالیٰ نوازنا بند کردے گا۔[4] حسن رضی اللہ عنہ اپنے جود و سخا اور ایثار میں مالدار، غریب، چھوٹے، بڑے اور قریب و دور کے مابین کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے، اس لیے کہ جو شخص خرچ کرکے اور دے کر راحت محسوس کرتا ہو، جود و سخا جس کی فطرت میں شامل ہو، اسے لوگوں کو خوش کرنے میں لذت محسوس ہوتی ہے۔[5] حافظ ابراہیم نے ان اشعار میں حسن رضی اللہ عنہ ہی کو مراد لیا ہے: إنی لتطربنی الخلال کریمۃ طرب الغریب بأوبۃ و تلاق
Flag Counter