Maktaba Wahhabi

121 - 148
ہیں۔ اور وہ یہ کہ برادران یوسف علیہ السلام کی طرف کھیل کود کی نسبت ان کے اعلی اور عظیم الشان منصب ِنبوت کے منافی ہے۔نیز قرآن کریم کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ اولادِ ابنیاء کی طرف کھیل کود کے رجحان کی نسبت کر ے گا،جنہیں نبوت و رسالت کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔لہٰذا لفظ (نَلْعَبْ) کو یاء کے ساتھ پڑھنا زیادہ درست ہے،اگر چہ یاء کے ساتھ قراء ۃ لفظ ’’نستبق‘‘ سے لگا نہیں کھاتی۔ گولڈ زیہر کی مغالطہ آرائی اوراس کا تجزیہ: ٭ پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ اگر کسی قراء ۃسے آیت کی تفسیر کا آغاز کرنا مفسر کی نگاہ میں،اس قراء ۃ کے ا صلی اور اساسی ہونے کی دلیل بن سکتا ہے،جیسا کہ علامہ زمخشری اور بیضاوی رحمہما اللہ نے کیا ہے تو پھر متعدد ائمہ تفسیر،جیسے شیخ المفسرین امام ابن جریر طبری،علامہ قرطبی،علامہ آلوسی رحمہم اللہ اور دیگر کبار مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کا آغاز یاء کے ساتھ قراء ۃ ’’یرتع و یلعب‘‘ سے کیا ہے۔اس لحاظ سے تو یہ دونوں قراءات اساسی اور بنیادی قرار پائیں گی۔ ٭ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نون کے ساتھ قراء ۃ کی لفظِ ’’نستبق‘‘ کے ساتھ مطابقت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں ہے کہ اس بنیاد پر اسے ا صلی قراء ۃ قرار دے دیا جائے۔ ہاں اس مطابقت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ نون کی قراء ۃ کو یاء کی قراء ۃ پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ وگر نہ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ یہ مطابقت ہی اس قراء ۃ کے ا صلی ہونے کا سبب ہے تو پھر اس سے بھی مضبوط سبب جو یاء کے ساتھ قراء ۃ کے ا صلی ہونے کا مقتضی ہے،ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے: ’’ان دونوں قراءات میں سے زیادہ درست میرے نزدیک ان کی قراء ت ہے جنہوں نے دونوں کلمات کو یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔اس لیے کہ برادران ِیوسف نے باپ سے یوسف کو اپنے ساتھ بھیجنے کی درخواست کی تھی اور باپ کو یوسف کے بارے میں یہ کہہ کر دھوکا دیا تھا کہ یوسف کا ان کے ساتھ جانا،کھلے میدانوں
Flag Counter