Maktaba Wahhabi

148 - 148
’’متکلمین نے خاص طور پر قرآنی نص کے بارے میں کسی حد بندی کو پسند نہیں کیا۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر ایک قراء ت اور حرف،عربی قواعد کی رو سے درست ہے تو اس کے ثبوت کے لیے رائے اور اجتہاد کو کام میں میں لانا بھی جائز ہے،قطع نظر اس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا ہے یا نہیں۔‘‘ گولڈ زیہر کی بد دیانتی کا تجزیہ: میں یہ سمجھتا ہوں کہ گولڈ زیہر کی اس تحقیقی تگ و تاز کا مقصدحق کی جستجو ہے نہ ہی اس نے آراء کو نقل کرنے میں دیانت داری کا ثبوت دیا ہے۔گولڈ زیہر نے مذکورہ عبارت سے یہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ شاید تمام متکلمین کی رائے یہی ہے،حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے،بلکہ یہ متکلمین میں سے صرف چند لوگو ں کا خیال ہے۔جمہور متکلمین نے اس رائے کو سختی سے ردّ کر دیا ہے اور اس خیال کے حاملین کی غلطی کو واضح کیا ہے۔اور دیگر علمائے حق کی طرح ان کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ کوئی بھی قراء ت محض اس بنیاد پر قرآن قرار نہیں پا سکتی کہ وہ مشہور یا عربی قواعد کی روسے درست ہے،بلکہ اس کے قرآن ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ بذریعہ تواتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ جمہور متکلمینِ اسلام نے قراءات کا تمام تر انحصار نقل و روایت اور براہ راست سماع کو ہی قرار دیا ہے۔ کتاب کے صفحہ 65،66 پر درج گولڈ زیہرکے اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’علمائے دین اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ عربی زبان کے ماہرین قرآن کریم کی نصوص میں کسی قسم کی دخل اندازی کریں۔حالانکہ انہوں نے بغیر کسی ترمیم کے قرآن کے مشکل مقامات کو درست کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔پھر بھی عموما ً انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق قرآنی متن میں کسی قسم کی ترمیم کر سکیں،جیسا کہ مخصوص قراء کو اس کی عام اجازت تھی۔زمانہ قدیم میں بعض ایسی قراءات کااعتراف بھی سامنے آیا ہے جو باریک نحوی قواعد اور ان کے مخالف بعض الفاظ و جملوں کے درمیان مطابقت اور ہم
Flag Counter