Maktaba Wahhabi

128 - 148
(۱۳)۔ تیرھویں مثال اس سلسلہ میں گولڈ زیہر نے سورۃ التوبہ کی یہ آیت پیش کی ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّٰدِقِیْن﴾ اس کے ضمن میں گولڈ زیہر نے اپنی کتاب کے صفحہ 45 پر لکھا ہے: ’’سچ کی ترغیب کے متعلق یہ عبارت بعض احتیاط پسندلوگوں کے نزدیک جامع اور اپنے مفہوم میں فیصلہ کن نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سچے لوگوں کے ساتھ تو ہوتا ہے،لیکن ان میں سے نہیں ہوتا۔لہٰذا انہوں نے﴿وَکُونُوا مِنَ الصَّٰدِقِیْن﴾ کی قراء ۃ کو ترجیح دی ہے:‘‘ گولڈ زیہر کے استدلال کا تجزیہ: ٭ گولڈ زیہر کا یہ استدلال مغالطہ انگیز اور فریب دہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ (مع)ایک جگہ جمع ہونے اورساتھی بنانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں مراد لوگوں کو بنفس نفیس کسی وقت میں یا کسی جگہ میں جمع ہو نے کا حکم نہیں ہے،بلکہ اوصاف و کردار میں ساتھی بننے اور شریک کار ہونے کا حکم ہے۔چنانچہ آیت کا معنی یہ ہو گا کہ سچے لوگوں کے ساتھی بنو اور ان کاساتھ دو جنہوں نے اپنے مقاصد،اقوال،اعمال میں ہمیشہ اللہ سے سچ بولا۔ ان کی سیرت اورکردار اپناؤ،ان کے نقش قدم پر چلو اور ان کے منہجِ زندگی کو اختیارکرو۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان جب کسی گروہ کا ہم رکاب ہوتا ہے،ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے،پسند و نا پسند میں ان کی اتباع کرتا ہے تو رفتہ رفتہ ان کے اخلاق اور اوصاف اس کی طرف منتقل اور اس کے شعور و احساسات میں سرایت کر جاتے ہیں اور ان کی عادات و اطوار اس کے مزاج کاحصہ بن جاتی ہیں۔ اور بالآخر وہ بھی ان کے ساتھ سچ کا ایک نمونہ بن جاتا ہے۔کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔طبیعتیں ہمیشہ طبیعتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے ’’ من‘‘ اور ’’ مع‘‘ کی تعبیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔
Flag Counter