Maktaba Wahhabi

114 - 148
رہی اور یہ ایمان لانے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں تو انہوں نے ان قوموں کے خلاف بددعا کی،اللہ تعالی نے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی مدد کی اور جھٹلانے والے عذابِ الٰہی کے نتیجے میں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ یا آیت کا معنی یہ ہے کہ رسولوں کو یقین ہو گیا کہ ان کی قوم نے ان کی تکذیب کر دی ہے کہ رسولوں نے کافروں پر جس عذاب اور ان کے خلاف مسلمانوں کی جس مدد کا وعدہ کیا تھا،وہ جھوٹا نکلااور مومنوں پرعرصہ آزمائش مزید طویل ہو گیا ہے۔اس قراء ۃ کی بنیاد پر لفظ ’ظن ‘ یہاں اپنے حقیقی معنی میں بھی ہو سکتا ہے۔ اوریہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا کہ قوم کے جو لوگ ان پر ایمان لائے ہیں،وہ ان کی تکذیب کریں گے۔آیت کی یہ تفسیر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ انبیاء پر آزمائش کا عرصہ ہمیشہ دراز ہوا،جس کی وجہ سے انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ ان کے پیروکار کہیں ان کی تکذیب نہ کر دیں۔ امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک اس سے مراد رسولوں کے پیروکار ہیں جو رسولوں پر ایمان لائے تھے اور ان کی تصدیق کی تھی۔ جب ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور اللہ کی مدد میں تاخیر ہو گئی،حتی کہ رسول اپنی قوم کے ان لوگوں سے مایوس ہو گئے جنہوں نے ان کی تکذیب کی تھی تو رسولوں نے یہ گمان کر لیا کہ اب ان کے پیروکار ان کی تکذیب کریں گے تو اس وقت ہماری مدد آگئی۔ دوسری قراء ۃ ’’کُذِبُوا‘‘ کی توجیہات: دوسری قراء ۃ کی مفسرین نے دو تو جیہات بیان کی ہیں: پہلی توجیہ یہ کہ ’’وَظَنُّوا‘‘ میں ضمیرکا مرجع جھٹلانے والی قوم کو قرار دیا جائے،کیونکہ﴿کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾میں ان کا ذکر پہلے ہے۔ اور ’’أَنَّہُمْ‘‘ اور ’’کُذِبُوا‘‘ میں ضمیرکا مرجع رسولوں کو قرار دیا جائے۔اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ ’’قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے جو دشمنوں کے خلاف ان سے اللہ کی مدد کا وعدہ کیا تھا،وہ جھوٹانکلا۔‘‘
Flag Counter