Maktaba Wahhabi

130 - 148
اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اُولٰٓئِکَ سَنُؤْتِیْہِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ کے متعلق پوچھا کہ اس میں لفظِ ’’الْمُقِیْمِیْنَ‘‘ جو کہ معطوف بن رہا ہے،اپنے معطوف علیہ کے مطابق نہیں ہے۔تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ کاتبوں کی غلطی ہے۔ اسی طرح عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے مذکورہ بالا مقام کے متعلق اپنی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا:یہ کاتبوں کی غلطی ہے،کاتبوں نے یہاں لکھنے میں غلطی کی ہے۔ اسی طرح سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سورۃ النور کی آیت:27 میں﴿حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا﴾ لکھنے والوں کی غلطی ہے،اور انہوں نے اسے ’’حتی تستأذنوا‘‘ پڑھا ہے۔‘‘ گولڈ زیہر کی خیال آرائی کا جائزہ: گولڈ زیہر نے جو روایات اپنے زعم میں بطور دلیل پیش کی ہیں،یہ تمام تر سراسر باطل اور قابل رد ہیں،امت مسلمہ میں سے کسی نے بھی ان کو پَرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دی اور تواترِ مصحف کے مقابلے میں ان کا کوئی اعتبار اور وزن ہے،نہ یہ ان روایات کے مقابلے میں کھڑی ہونے کے قابل ہیں،جن پر پوری امت مسلمہ ہمیشہ سے متفق رہی ہے۔کوئی بھی انصاف پسندمحقق ان بیہودہ اور باطل روایات کو ان روایات کے مقابلے میں پیش کرنے کی جرأت نہیں کرے گا جو زمانہ نبوت سے نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں،کیونکہ قطعی اور متواتر چیز کے ساتھ معارضہ اور تقابل نا انصافی ہے۔ بعض علماء نے ان بے بنیاد روایات کو بغیر کسی تحقیق و تمحیص کے محض ریکارڈ کے طور پراپنی کتب میں ذکر کیا،لیکن اسلام دشمن عناصر اور مستشرقین نے انہیں اسلام اور قرآن کے خلاف طعن و تشنیع کا ذریعہ بنا لیا اور کتاب اللہ پر مسلمانوں کے اعتماد کی توہین کے درپے ہو گئے۔
Flag Counter