Maktaba Wahhabi

73 - 148
کلمہ کو دوسرے کلمہ یا کسی حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔پھر اسی شان کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین نے اسے نقل کیا اور تابعین سے اگلی نسلوں نے نقل کیا۔اور بغیر کسی تعطل کے نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا ہوا بالآخر ہم تک پہنچا۔اور یوں ہی امت مسلمہ ہر دور میں اس کی حفاظت اور آئندہ نسلوں تک اسے منتقل کرنے کا فرض انجام دیتی رہے گی،یہاں تک کہ اس کائنات کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔اوربالآخر تاریخ کے چہرے پر یہ حقیقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ثبت ہو گی: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:9) ’’بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ ان آیات کی حقیقت جن سے گولڈ زیہر نے استشہاد کیا ہے: اب ان مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں جو گولڈ زیہر ( Ignaz G ld Zihar) نے اپنے اس نظریہ (کہ رسمِ مصحف مختلف قراءات کا باعث بنا ہے) کی حمایت میں پیش کی ہیں: (۱)۔ سورۃ الاعراف کی آیت﴿وَ نَادٰٓی اَصْحٰبُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَہُمْ بِسِیْمٰیہُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَ مَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ کے بارے میں گولڈزیہر نے لکھا ہے:’’اس میں لفظ﴿تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ کو بعض نے ثاء مثلثہ کے ساتھ ’’تَسْتَکْثِرُوْنَ‘‘ پڑھا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ﴿تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ کو باء کی بجائے ثاء مثلثہ کے ساتھ نہ قراے عشرہ میں سے کسی نے پڑھا ہے اور نہ قراءات شاذہ کے چار قراء میں سے کسی نے اس طرح پڑھا ہے۔لہٰذا نہ تو یہ قراء ۃ متواتر ہے نہ صحیح اور نہ ہی شاذ،بلکہ یہ خود ساختہ اور من گھڑت ہے۔ علمائے قراء ا ت میں سے کسی کے ہاں بھی یہ قراء ت قابل اعتنا اور قابل اعتماد نہیں ہے۔ائمہ قراء ۃ میں سے کسی نے بھی اسے کوئی وزن نہیں دیا۔اس قراء ۃ کے قابل مسترد ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ یہ کسی مخصوص قاری یا راوی کی طرف منسوب نہیں ہے۔اس سے یہ حقیقت مبرہن ہو جاتی ہے کہ قراءات قرآنیہ کی اصل بنیاد نقل اور سند ہے،رسم الخط قطعاً نہیں ہے۔
Flag Counter