Maktaba Wahhabi

139 - 148
جھوٹ ہے۔جب دونوں قراءات،رسم عثمانی کے مطابق ہیں،تو پھر ان میں سے ایک کو نصِ قرآنی کے مخالف قرار دینا چہ معنی دارد؟ گولڈ زیہر کی زہر افشانی اور اس کا ردّ: صفحہ 49،50 پر گولڈ زیہرکے اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’قراء ت میں معتمد علیہ چیز آیت کا معنی و مفہوم ہے،مخصوص قراء ت پر دلالت کرنے والا لفظ اصل مقصود نہیں ہوتا۔معنی کی مطابقت کا خیال رکھتے ہوئے کسی بھی لفظ کے ساتھ نص کی قراء ت کی جاسکتی ہے۔ہر ہر حرف کی پاپندی ضروری نہیں ہے۔‘‘ اس سلسلے میں گولڈ زیہر نے سورۃ الفاتحہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ:﴿اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ﴾ کی بجائے (أرشدنا الصراط المستقیم) سے استدلال کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف یہ اہم قول بھی منسوب ہے کہ ((لقد سمعت القراء و وجدت أنہم متقاربون فاقرء وا کما علمتم …)) کہ ’’میں نے قراء کو سنا اور انہیں ایک دوسرے کے قریب قریب پایا ہے،لہٰذا تم ویسے ہی پڑھو،جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے۔ قراءات کا باہمی تعلق ایسے ہی ہے جیسا ’’ہلم‘‘ اور ’’تعال‘‘ کا آپس میں ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ ’’عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (متوفی181ھ) جو درایتِ حدیث اور زہد و ورع میں ممتاز مقام پر فائز تھے،کے متعلق نقل کیا گیا ہے،کہ وہ پڑھتے ہوئے کسی کے لیے دہراتے نہیں تھے۔‘‘ گولڈ زیہر کی مذکورہ باتیں سرا سرجھوٹ اور حقائق سے متصادم ہیں،اس لیے کہ ٭ تمام علمائے اسلام اس حقیقت پر متفق ہیں کہ قرآن کریم میں مفہوم کے ساتھ ساتھ الفاظ کی پابندی بھی ضروری ہے۔معنی ومفہوم عمل کے لیے ہے اور الفاظ کی تلاوت اجرو ثواب کے لیے ہے۔ ٭ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قرآنی مفہوم کی ترجمانی کے لیے ہر کسی کو اپنی مرضی سے الفاظ
Flag Counter