Maktaba Wahhabi

119 - 148
آیت مجھے پوری طرح پہنچ چکی ہے:﴿حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَائَ ہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَائُ وَلَا یُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ﴾ ((110 یہ تو موت ہے کہ پیغمبر گمان کریں کہ ان سے جھوٹ بولا گیا۔تو سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:اے ابو عبد الرحمن،اس کا معنی یہ ہے کہ ’’جب رسول اپنی قوم کی طرف سے دعوتِ حق قبول کرنے سے مایوس ہوگئے اور ان کی قوم نے بھی سمجھ لیا کہ رسولوں نے ان سے جھوٹ بولا تھا تو پھراچانک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔اس قسم کے موقع پر ہمارا قانون یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔‘‘مسلم بن یسار یہ سن کر اٹھے اور سعید کو گلے لگاتے ہوئے کہا:جس طرح آپ نے میری مشکل کو حل کیا ہے،اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات کو آسان کردے۔ (۱۱)۔ گیارھویں مثال جو گولڈ زیہر نے اس حوالہ سے پیش کی ہے،وہ سورۃ یوسف کی یہ آیت مبارکہ ہے: ﴿أَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾ (یوسف:12) قراءات عشر ۃ کے قراء نے ’’یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ‘‘ دونوں کلمات میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے دونوں کلمات کو یاء کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض نے دونوں کو نون کے ساتھ پڑھا ہے۔ گولڈ زیہر نے ان میں سے لفظ ’’یَلْعَبْ‘‘ کو نہایت اہتمام کے ساتھ موضوع بحث بنایا ہے۔ اور کہا ہے کہ قراء کے ہاں اسے یاء کے ساتھ پڑھنا زیادہ پسندیدہ ہے،لیکن علامہ زمخشری اور بیضاوی رحمہما اللہ کی صراحت کے مطابق اساسی اور بنیادی قراء ۃ نون کے ساتھ ’’وَنَلْعَبْ‘‘ کی قراء ۃ ہے۔اس کے بعد گولڈ زیہر نے اسی سورت کی آیت﴿قَالُوا یَا أَبَانَا إِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ﴾ سے استدلال کرتے ہوئے ’’وَنَلْعَبْ‘‘ کی قراء ۃ کے ا صلی اور بنیادی ہونے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے،اس اعتبار سے کہ لفظ ’’نَسْتَبِقُ‘‘ کو تمام قراء نے بالاتفاق نون کے ساتھ پڑھا ہے۔اس کے بعد وہ کہتا ہے: ’’تاہم اس قراء ۃ کو چھوڑنے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ امام طبری رحمہ اللہ،جنہوں
Flag Counter