Maktaba Wahhabi

118 - 148
پھر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بھی گولڈ زیہرمریضانہ ذہنیت،الحادی رجحان اور بدنیتی کا ثبوت دینے سے باز نہیں رہ سکا۔وہ کہتا ہے کہ ’’تاہم انبیاء نے یہ سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ سرزد ہو گیا ہے۔یہ ایسی بات ہے کوئی بھی سچامومن اس کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ اس کو قبول کر سکتا ہے۔‘‘ ابھی آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس قراء ۃ کی تفسیر و تاویل آیت کے سیاق کے عین مطابق ہے اور اس سے انبیاء کی عظمتِ شان بھی مجروح نہیں ہوتی۔ اگر گولڈ زیہر نیک نیتی کا مظاہرہ کرتا تو وہ اس قراء ۃ کی بھی وہی تاویل کر سکتا تھا جو قراء ۃ متواتر میں کی گئی ہے۔ وہاں اس نے ’’ظَنُّوا‘‘ میں ضمیر کا مرجع قوم کو قرار دیا ہے۔اگر ’’کَذبُوا‘‘ کی قراء ۃ میں بھی ایسا ہی کیا جائے تو معنی یہ ہو گا کہ ان کی قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے ان سے جھوٹ بولا ہے۔ لیکن دلِ بیمار جب بے لگام خواہشات کے زیر اثر اندھا ہو جائے تو ہمیشہ دور کی ہی سوجھتی ہے۔ گولڈ زیہر کی بدنیتی اور فکر و تحقیق کے میدان میں اس کی ناپختگی اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کو بطور دلیل ذکر کیا ہے کہ انہوں نے بھی ’’کَذبُوا‘‘ کی قراء ۃ،جو دلیل ہے کہ ’’انبیاء نے گمان کیا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔‘‘کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس اشکال کو حل کر نے کی کوشش کی۔حالانکہ کتب حدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضرت عائشہ نے ’’ کُذِبُوا‘‘ کی قراء ۃ کو بعید خیال کرتے ہوئے ’’ کُذِّبُوا‘‘ کی قراء ۃ کو اس پر ترجیح دی۔[1] اس کے علاوہ گولڈ زیہر نے مسلم بن یسار رضی اللہ عنہ اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو ’’ کَذبُوْا‘‘ کی قراء ۃ سے متعلق ذکر کر کے بددیانتی کاایک اور ثبوت فراہم کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن یسار نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما سے ’’ کُذِبُوا‘‘ کی قراء ۃ کی تاویل کے متعلق پوچھا تھا (نہ کہ ’’ کَذبُوا‘‘ کی قراء ۃ سے متعلق)،جیسا کہ کتب حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کہ مسلم بن یسار رضی اللہ عنہ نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:اے ابو عبداللہ! قرآن کریم کی یہ
Flag Counter