Maktaba Wahhabi

803 - 822
کے اور مدینہ کی اعلیٰ مرکزی فوجی قیادت (جس کی باگ ڈور خلیفہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے) کے درمیان کوئی سمندری راستہ حائل نہ ہو تاکہ دونوں کے درمیان رابطے کا سلسلہ آسان اور برابر باقی رہے۔[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی افواج کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آپ لوگوں کا مصر میں قیام کرنا سرحدی حفاظت کے لیے رباط ہے۔ فرماتے ہیں: جان لو کہ تم لوگ قیامت تک کے لیے اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہو (اس کا ثواب تمہیں ہمیشہ ملتا رہے گا) اس لیے کہ تمہارے ہر چہار جانب دشمنوں کی کثرت ہے، وہ تمہیں اور تمہارے وطن کی طرف، جہاں اموال، زمینی پیداوار اور روز افزوں خیر و برکت کا خزانہ ہے، للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مصری فتوحات کے جس مرحلے میں اسلامی فوج نے قدیم مصری سرحد کے حفاظتی قلعوں اور اسلحہ خانوں پر قبضہ کیا تھا انہیں ترمیم و تجدید کے بعد اس لائق بنا دیا کہ اس میں اسلامی افواج مستقل طور پر قیام کر سکیں اور پھر اس میں اسلامی افواج ٹھہرائی گئیں۔ چنانچہ مصر کے سرحدی شہر ’’عریش‘‘ میں سب سے پہلے مسلح فوجی چوکی قائم کی گئی[2]اور پھر مصر کے تمام ساحلی حدود پر اس طرح کی کئی مسلح فوجی چوکیاں قائم کی گئیں۔[3] اسی طرح جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کی سرحد پر قبضہ کیا تو اپنے ایک ہزار مسلح ساتھیوں کو اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور کیا، لیکن یہ تعداد ضرورت کے لیے ناکافی ٹھہری اور بحری راستے سے رومی افواج نے دوبارہ حملہ کر کے کچھ لوگوں کو قتل کر دیا اور کچھ لوگ سرحد چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان پر قابو پانے کے لیے دوبارہ سخت حملہ کیا اور سرحد پر قبضہ کر لیا اور اس کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنی ایک چوتھائی فوج لگا دی اور دوسری چوتھائی فوج کو ساحلی علاقوں کی نگرانی پر مامور کر دیا۔ جب کہ بقیہ نصف فوج لے کر خود فسطاط میں مقیم رہے۔[4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ بھی اسکندریہ کی سرحد کی اہمیت کے پیش نظر ہر سال مدینۃ النبی سے مجاہدین کی ایک جماعت اس کی حفاظت و نگرانی کے لیے بھیجتے تھے اور گورنروں کو خط لکھتے رہتے تھے کہ اس سے غافل نہ رہیں اور کثیر تعداد میں مسلح گشتی دستوں کو وہاں مامور رکھیں۔[5] اس طرح سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عراقی، شامی اور مصری تینوں محاذوں پر سلطنت اسلامیہ کی بری حدود کو مکمل طور پر محفوظ کر کے اپنی دور اندیشی اور بالغ نظری کا مکمل ثبوت دیا۔[6]
Flag Counter