Maktaba Wahhabi

741 - 822
کی موجودگی میں ہو۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو اس سلسلہ میں خط لکھا اور آپ دمشق جابیہ پہنچے، پھر وہاں سے بیت المقدس کے لیے روانہ ہوئے اور بیت المقدس پہنچ کر وہاں کے لوگوں سے معاہدہ صلح تحریر کیا، اس طرح بیت المقدس ۱۷ہجری میں فتح ہوا۔ اس کے بعد بلاذری لکھتے ہیں کہ فتح بیت المقدس کے بارے میں دیگر سندوں سے دوسری روایات بھی منقول ہیں۔[1] بہرحال مؤرخین کی متعدد روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم طبری کی پہلی روایت کو راجح مانتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ بیت المقدس کا محاصرہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے نہیں اور اپنی تحقیق میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ممکن ہے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے کمانڈر جنرل ہونے کے ناتے بیت المقدس کی فتح سے متعلق رائے و مشورہ کرنے کی غرض سے جابیہ میں جا کر امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملے ہوں، کیونکہ تاریخی روایات سے اس بات کا پختہ ثبوت ملتا ہے کہ جابیہ میں آپ کے پہنچنے اور شام کے تمام امرائے لشکر کی مجلس شوریٰ بلانے کے وقت یزید رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ راشد سے ملنے والے آپ ہی دوسرے شخص تھے اور جس مجلس میں یزید رضی اللہ عنہ ، شرحبیل رضی اللہ عنہ اور شام کے دیگر بڑے قائدین فوج کے سامنے بیت المقدس کے باشندوں سے معاہدہ صلح اور شہر مقدس سونپ دینے کی باتیں ہو رہی تھیں اس میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بھی حاضر تھے۔ البتہ معاہدہ صلح میں آپ کا نام بحیثیت گواہ درج نہ کیا گیا جب کہ عمرو بن عاص، عبدالرحمن بن عوف، معاویہ بن ابوسفیان اور خالد بن ولیدرضی اللہ عنہم کے نام بحیثیت گواہ درج ہیں، یہ معاہدۂ صلح کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ بات کہنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی توجیہ نہیں کہ جس فوج نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تھا اس کے قائد ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نہیں تھے، بلکہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔[2] (کیونکہ آپ کی قیادت میں محاصرہ ہوتا تو آپ کا نام بحیثیت گواہ کے ضرور درج کیا جاتا)۔ ۴: معاہدہ نامہ: طبری کی روایت کے مطابق جو معاہدہ طے پایا تھا وہ یہ تھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم! یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر نے ’’ایلیا‘‘ (بیت المقدس) کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے، نہ ان کے گرجاؤں کو مسکن بنایا جائے گا اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ گرجاؤں اور ان کے احاطوں،صلیب اور اموال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہیں کیا جائے گا، نہ ان میں کسی کے ساتھ بدسلوکی کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ایلیا میں ان کے ساتھ یہودی نہیں رہنے پائیں گے۔ ایلیا والوں پر فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور رومیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان رومیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا اس کی جان
Flag Counter