Maktaba Wahhabi

310 - 822
فارغ ہوئے اور عالم اسلام میں پائے جانے والے اوّلین علمی مدارس میں ہمیں اس فاروقی مدرسہ کا کافی اثر نظر آرہا ہے، اس لیے کہ تمام موسسین مدارس ومراکز علمیہ تقریباً فاروقی فقہ وبصیرت سے متاثر ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب ان علمی مدارس کے بارے میں مختصراً معلومات قارئین کی پیش خدمت ہیں: ۱: مکی درس گاہ: مسلمانوں کے دلوں میں مکی مدرسہ کا بڑا احترام تھا، خواہ وہ مکہ کے باشندے ہوں یا بلد حرام کی زیارت کرنے والے اور حج وعمرہ کرنے والے، ہر مومن جس نے مکہ کو دیکھا یا اسے دیکھنے کی کوشش کی، اس کے دل کو اپنی طرف موڑ لیا۔ صحابہ کرام کے زمانے میں مکہ میں علم کا زور کم تھا، لیکن ان کے آخری اور تابعین کے ابتدائی دور میں نیز تبع تابعین جیسے ابن ابی نجیح، اور ابن جریج[1]کے زمانے میں مکہ میں علم کا زور ہوا۔ البتہ مکہ کو یہ خصوصیت ملی کہ اسے ترجمان القرآن اور حبر الامت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، جن کی تمام تر توجہات اور کوششیں علم تفسیر پر مرکوز تھیں اور اپنے شاگردوں کو اسی کی تربیت دیتے تھے۔ پھر تابعین میں ایسے ائمہ وعلماء پیدا ہوئے جو دیگر تفسیری مدارس کے طلبہ پر سبقت لے گئے۔ علمائے محققین نے اس مکی مدرسہ کی برتری اور نمایاں کارکردگی کے اسباب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی امامت واستاذی کو کلیدی مقام دیا ہے۔ [2] اور جن اسباب نے قرآنِ مجید کی تفہیم وتفسیر کے باب میں ان کو دوسرے صحابہ سے ممتاز کیا ان اسباب کو بھی ذکر کیا۔ مختصراً وہ اسباب یہ ہیں: & ان کے حق میں دین کی سمجھ اور علم تفسیر قرآن کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا فرمانا۔ & کبار صحابہ سے علم سیکھنا۔ & اجتہاد کی صلاحیت اور استنباط پر قدرت نیز تفسیر سے خصوصی شغف۔ & منفرد ومخصوص انداز میں اپنے شاگردوں کی تعلیم وتربیت۔ & علم کی نشر واشاعت کی دُھن اور اس کے لیے دور دراز کا سفر کرنا۔ & تاخیر سے وفات ہونا۔ & عمر رضی اللہ عنہ کے گھر کی قربت۔ [3] اور جب عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اندر شرافت اور ذہانت وفطانت کی علامات دیکھیں تو ان پر خصوصی توجہ دی، انہیں اپنی مجلس میں بلاتے اور اپنے قریب بٹھاتے، ان سے مشورہ کرتے، جہاں قرآنی آیات میں اشکال ہوتا ان کے بارے میں استفسار کرتے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما چونکہ ابھی نوجوان لڑکے تھے اس لیے اس
Flag Counter