Maktaba Wahhabi

754 - 822
(۲) فتوحات مصر ولیبیا مسلمانوں کی نگاہ میں مصر فتح کرنے کے چند قوی اسباب تھے، سب سے اہم سبب تو یہ تھا کہ وہ اسلامی عقیدے کو روئے زمین کے چپے چپے میں غالب وعام کرنا چاہتے تھے، اور چونکہ مصر کی سرحدیں فلسطین سے ملتی تھیں، اس لیے فتح فلسطین کے بعد ان کا مصر کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر تھا۔ مسلمانوں نے شام فتح کر کے روم کی بازنطینی بادشاہت کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کر دیا تھا کہ دونوں کے درمیان اتصال سمندر کے ذریعہ سے ہو سکتا تھا۔ مصر اور شمالی افریقہ میں روم کی مسلح افواج موجود رہتی تھیں، دریائے نیل میں رومیوں کا مضبوط بحری بیڑا پہلے ہی موجود تھا، اس لیے مسلمان شام میں اس وقت تک خود کو مامون نہیں سمجھ سکتے تھے، جب تک مصر رومی قبضہ میں باقی تھا، مصر ایک مالدار ملک تھا، قسطنطنیہ میں سامان رسد یہیں سے بھیجا جاتا تھا، چنانچہ جب مسلمانوں نے مصر فتح کر لیا تو رومیوں کا اثر و نفود بالکل جاتا رہا اور مسلمانوں کو شام وحجاز میں اس اعتبار سے اطمینان وامن حاصل ہوگیا کہ مصر کے راستے سے روم کا حجاز پہنچنا آسان نہ رہا۔[1] فتح مصر کا دوسرا سبب یہ بھی بنا کہ مصر کے قدیم باشندے ’’قبطی‘‘ رومیوں کے ظلم و جبر کا شکار تھے۔ فوجی محافظوں اور سرحدی چوکیداروں سے زیادہ ان کی زندگی کی کوئی وقعت نہ تھی پس ایسی صورت میں یقینی تھا کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے، خاص طور سے اس لیے کہ مسلمانوں کے عدل و انصاف کا چرچا وہ پہلے ہی سن چکے تھے۔[2] اور مصر کے ان محافظ دستوں کو مسلمانوں اور اسلامی فوج سے مرعوب ہونا ضروری بھی تھا۔[3] کیونکہ وہ دیکھ چکے تھے کہ ہمارا بادشاہ ہرقل شام کو اسلامی سلطنت کے حوالے کر کے چھوڑ بھاگا ہے… عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان تمام تبدیلیوں کا نہایت باریکی سے مطالعہ کر رہے تھے اور اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ رومی افواج اب مصر میں مسلمانوں کے سامنے ٹھہرنے کی طاقت کھو چکی ہیں اور اگر اس حالت میں بھی مصر کو فتح نہیں کیا جاتا تو یہ ہمیشہ مسلمانوں کے لیے خطرے کا مرکز بنا رہتا، اس بات کا اظہار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان سے کیا۔[4] مصر فتح کرنے کا خیال سب سے پہلے کس کے دل میں پیدا ہوا، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دل میں، یا ان کے مشورہ کے بغیر خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس طرف توجہ دی یا یہ کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے اصرار کے بعد خلیفہ
Flag Counter