Maktaba Wahhabi

203 - 822
اٹھایا اور ان کے سر پر دے مارا، پھر کہا: ’’تم نے اللہ کی رضامندی کے لیے نہیں بلکہ میری قربت چاہنے کے لیے یہ بات کہی ہے۔ اگرچہ میرا گمان ہے کہ تم میں بھلائی ہے، تمہارا برا ہو، کیا تم میری اور ان لوگوں (رعایا) کی مثال جانتے ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا: کیا مثال ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس قوم کی مثال ہے جس نے سفر شروع کیا اور اپنا زادِ راہ اپنے میں سے کسی ایک آدمی کو بطور امانت دے دیا اور کہہ دیا کہ ہمارے اوپر حسب ضرورت خرچ کرو۔ ایسی صورت میں کیا اس کے لیے حلال ہے کہ اس میں سے کسی چیز کے بارے میں خود کو دوسروں پر ترجیح دے؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں اے امیر المومنین! آپ نے فرمایا: ’’بس میری اور ان کی یہی مثال ہے۔‘‘ [1] فقہائے شریعت نے خلیفہ کے اخراجات کے بارے میں سنت نبوی اور خلافت راشدہ کے واقعات سے کئی شرعی احکام مستنبط کیے ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: الف: خلیفہ کے لیے جائز ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے عوض تنخواہ لے سکتا ہے۔ نووی، [2] ابن العربی، [3] بہوتی [4] اور ابن مفلح [5] وغیرہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ ب: دونوں خلیفہ راشد ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نے اس ذمہ داری کو سنبھالنے پر اپنا خرچ لیا۔ ج: یہ خرچ مسلمانوں کے معاملات میں مشغولیت کی وجہ سے لیا گیا، جیسے کہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نے اسے خود بیان کیا۔ د: خلیفہ کے لیے مطلق طور پر ذاتی خرچ لینا جائز ہے، خواہ اسے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو اور ابن منیر [6] کی رائے ہے کہ اسے خرچ لینا ہی بہتر ہے کیونکہ نہ لینے کی بہ نسبت لینا اس کے کام کے لیے زیادہ معاون ثابت ہوگا اور ایسی صورت میں اسے یہ احساس رہے گا کہ خرچ لینے کے عوض اس پر کام کرنا واجب ہے۔ [7] ہجری تاریخ کا آغاز: تہذیب وتمدن کی ترقی کے مختلف میدانوں میں ہجری تاریخ کے آغاز کو ایک اہم مقام دیا جاتا رہا ہے۔ ہجری تاریخ کے موجد سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے، ہجری تاریخ کی شروعات کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں: میمون بن مہران کا بیان ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک دستاویز پیش کی گئی جسے شعبان میں آپ کے پاس
Flag Counter