Maktaba Wahhabi

759 - 822
میں اپنی جان محفوظ نہیں سمجھتی۔[1]پھر جب وہ اپنے باپ کے پاس پہنچی تو وہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا برتاؤ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔[2] ۳: معرکہ ام دنین: ابن عبدالحکم نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر آگے بڑھے اور تقریباً ایک مہینہ مسلسل لڑنے کے بعد بلبیس فتح کیا اور وہاں سے آگے بڑھے تو ’’ام دنین‘‘ آئے جس کا نام مقس تھا اور دریائے نیل پر واقع تھا۔ مسلمانوں نے اس کے اردگرد سخت لڑائی کی، سخت معرکہ آرائی کی وجہ سے عمرو رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ سے فوجی کمک کا مطالبہ کیا اور امیرالمومنین نے چار ہزار فوج کو فوراً مدد کے لیے روانہ کر دیا۔ ہر ہزار پر ایسا مرد آہن امیر مقرر کیا جو تنہا ہزاروں کا مقام رکھتا تھا، اس چار ہزار پر جو چار لوگ امیر مقرر کیے گئے تھے وہ تھے: زبیر بن عوام، مقداد بن اسود، عبادہ بن صامت اور مسلمہ بن مخلدرضی اللہ عنہم ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ چوتھے مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بجائے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ فوج بھیجنے کے ساتھ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تمہارے ساتھ بارہ ہزار مجاہدین ہیں، یہ تعداد کمی کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہوگی۔‘‘[3]رومی جنگجو قبطیوں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے نکلے، دونوں افواج میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس معرکہ میں بالکل اسی طرح جنگی سوجھ بوجھ سے کام لیا جس طرح خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عراق کی جنگوں میں لیا تھا۔ آپ نے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، ایک حصہ کو جبل احمر کی کمین گاہ میں چھپا دیا اور دوسرے کے لیے ام دنین سے قریب دریائے نیل پر کمین گاہ بنائی اور اس میں چھپا دیا اور بقیہ فوج لے کر خود دشمن کے مقابلہ پر نکلے، جس وقت دونوں افواج میں لڑائی شباب پر تھی، پیچھے سے جبل احمر کی کمین گاہ میں چھپی ہوئی فوج نے رومیوں پر سخت حملہ کیا جس سے ان کا فوجی نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ ام دنین کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور جب وہاں پہنچے تو اس کے قریب کمین گاہ میں چھپی ہوئی دوسری جماعت نے بھاگنے سے اس کا راستہ روک دیا، اس طرح رومی فوج مسلمانوں کی تینوں افواج کے بیچ پھنس گئی، اس کی جمعیت منتشر ہوگئی اور سب نے ہزیمت اٹھائی، صرف چند گنے چنے رومی بابلیون کے محفوظ قلعے میں بھاگ کر بچ سکے۔ چنانچہ مسلمانوں نے یہ معرکہ بڑی خوش اسلوبی سے سر کر لیا اور اللہ نے اپنے فضل و رحمت سے انہیں دشمنوں کے شر سے بچا لیا۔ یقینا مسلمانوں کے اس ماہر قائد کو اس قدر مستحکم منصوبہ سازی میں اللہ کی توفیق و تائید حاصل تھی کہ جس نے دشمن کی قوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔[4]
Flag Counter