Maktaba Wahhabi

820 - 822
کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتی رہے، کمزوروں اور محتاجوں کے لیے اپنا دروازہ بند نہ رکھنا کہ طاقتور کمزور کو نگلنے لگے۔ یہ میری وصیت ہے اور اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم کو السلام علیکم عرض کرتا ہوں۔‘‘[1] اس وصیت کا ایک ایک کلمہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت وسیاست کے تمام مسائل پر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی گہری نظر تھی اور آپ کی حکومت ایک نظام اور بہترین طریقہ عمل کی پابند تھی۔[2] یہ وصیت انتہائی اہم امور پر مشتمل ہے۔ اسے ایک گرانقدر دستاویزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اس میں ایک کامیاب حکومت کے ایسے بنیادی اصول وضوابط بتائے گئے ہیں جو دینی، سیاسی، فوجی، اقتصادی اور معاشرتی ہر پہلو سے مکمل ہیں۔ ان میں اہم ترین یہ ہیں: ۱: مذہبی پہلو: مذہبی پہلو میں چند باتیں نمایاں ہیں، مثلاً: ا: ہمہ وقت اللہ کے تقویٰ، ظاہر و باطن اور قول وعمل میں خشیت الٰہی کے شدید اہتمام کی وصیت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ جس آدمی کے دل میں اللہ کا تقویٰ ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو ہلاکتوں سے بچائے گا اور جس کے دل میں خشیت الٰہی ہوگی اس کی وہ حفاظت کرے گا اور گناہوں سے دور رکھے گا۔ چنانچہ کہا: ’’میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘ اور ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، گناہوں کی پاداش میں اس کی پکڑ اور غصہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ اور کہا: ’’لوگوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ ب: اس بات کی وصیت ہے کہ ’’حدود الٰہی کی تنفیذ میں قریبی اور اجنبی میں کوئی تفریق نہ کرنا۔‘‘ ’’حق کو حق دار تک پہنچانے میں کوئی تردد نہ کرو۔‘‘ اور کہا: ’’اللہ کے دین کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرنا۔‘‘ اس لیے کہ الٰہی حدود کی وجوبی تنفیذ پر شرعاً حکم آیا ہے، یہ دین کا ایک حصہ ہیں۔ اسلامی شریعت ہی حجت ہے، لوگوں کے اعمال و افعال کو اسی پر پرکھا جائے گا، شریعت سے غفلت برتنا گویا دین اور معاشرے کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ ج: اس وصیت میں استقامت اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، کیونکہ یہ چیز دین و دنیا کی ان اہم ضروریات میں سے ہے جسے سب سے پہلے حاکم وقت کو اپنے قول وعمل سے ثابت کرنا چاہیے، پھر یہ ذمہ داری رعایا کی ہے۔ ’’اپنے آپ کو نصیحت کرتے رہو۔‘‘ اور کہا: ’’ان اعمال سے اللہ کی رضا مندی اور آخرت کی بھلائی کے طالب بنو۔‘‘
Flag Counter