Maktaba Wahhabi

351 - 822
گھیر لیتے، آپ ان سے مطمئن رہتے اور بسا اوقات ان کے بارے میں اپنی خوشی واحترام کا اظہار بھی کرتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ متمم بن نویرہ نے اپنے بھائی مالک بن نویرہ کی موت پر مرثیہ کہا، اس کی موت مرتدین کی جنگ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوج کے ہاتھوں ہوئی تھی، متمم جب مرثیہ کہتے کہتے یہاں تک پہنچا: لا یمسک الفحشاء تحت ثیابہ حلو شمائلہ عفیف المئزر ’’اپنے کپڑوں کے نیچے فحش کاری کو نہیں چھپایا، اس کے اخلاق پسندیدہ تھے اور وہ پاک دامن تھا۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں چاہتا تھا کہ اپنے بھائی زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے اسی طرح کا مرثیہ کہتا جیسا کہ تم نے اپنے بھائی مالک کے لیے کہا ہے۔ متمم نے کہا: اے ابوحفص! اگر آپ جان لیں کہ میرے بھائی کا بھی وہی ٹھکانا ہے جو آپ کے بھائی کا ٹھکانا ہے تو آپ مرثیہ نہیں کہیں گے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہاری طرح کسی نے میری تعزیت نہیں کی۔ [1] ادبی نصوص کی فنی ومعنوی گرفت اور اس کی نزاکت ولطافت کے احترام ہی کی وجہ سے بلیغ ادبی نصوص کی قدر وقیمت کی معرفت میں بلندی کی منزلیں طے کرتے رہے اور پھر تنقید ومعرفت کے اس مقام تک پہنچ گئے کہ اس فانی دنیا کے خزانوں کی قیمت کبھی اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے ہرم بن سنان کے کسی بیٹے سے کہا کہ اپنے باپ کی مدح میں زہیر کا کچھ کلام پڑھو، اس نے حکم کی تعمیل کی، آپ نے کہا: تمہارے خاندان کے بارے میں زہیر خوب کہتا تھا۔ اس نے کہا: امیر المومنین! اسے ہم صلہ بھی خوب دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: لیکن تم نے جو دیا تھا وہ فنا ہوگیا اور اس نے تم کو جو دیا تھا وہ آج بھی باقی ہے۔ [2] خلاصہ یہ کہ انہی اساسیات نے عمر رضی اللہ عنہ کے تنقیدی ذوق کو غذا فراہم کی اور آپ کے ناقدانہ ملکہ کو پالش کیا اور اسلام اور ادبی سوتوں کے ابتدائی دور میں آپ کو اس عظیم ادبی مقام پر فائز کیا۔ [3] عمر رضی اللہ عنہ نے کسی شعری کلام کو دوسرے شعری کلام پر ترجیح دینے یا کسی شاعر کو کسی شاعر پر مقدم کرنے کے لیے جو معیار مقرر کیا تھا اس کی مختلف شکلیں تھیں، مختصراً وہ معیار یہ تھے: عربی زبان کا لحن سے پاک ہونا: آپ کا طبعی ذوق تھا کہ فصیح عربی زبان بولتے اور وہی پسند کرتے، لحن سے بہت دور رہتے، اس سے نفرت کرتے، کسی عبارت میں لحن کا پایا جانا اس بات کے لیے کافی تھا کہ آپ اس کلام کو صحیح نہ مانتے اور اسے پھینک
Flag Counter